تھرڈ امپائر-سٹے بازی یا سازش
تھرڈ امپائر-سٹے بازی یا سازش
برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ کے پاکستانی ٹیم پر الزامات کے بعد ساری قوم حیران و پریشان ہے۔شائقین کرکٹ نے اپنے منہ سے اپنی انگلیاں کاٹ لی ہیں۔انگریز قوم جو کہ ہر لحاظ سے شاطر ہے اس نے کیسے پاکستانی ٹیم اور پاکستانی کھلاڑیوں کو سٹہ بازی کیس میں پھنسا دیا ہے۔سلمان بٹ کی کارکردگی بھلے خراب سہی، محمد آصف بھلے متنازعہ سہی لیکن کوئی بھی تو محمد عامر جیسے نوجوان کے سٹہ بازی میں ملوث ہونے کا یقین نہیں کر رہا۔محمد عامر جو کہ ساری سیریز میں سب سے نمایاں رہا ہے جس کی باﺅلنگ سب سے پاور فل رہی ہے۔عالمی کرکٹ رینکنگ میں اس کا نام سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ حقیقتاً ہونا تو یہ چاہیئے کہ پاکستانی قوم کو اور بالخصوص پاکستانی کھلاڑیوں کو اس طرح کی تمام تر عالمی سازشوں کاڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیئے اور اپنی صفوں میں موجود تمام نقائص کو دور کرنا ہو گا۔چھلاوے اور بے ایمان لوگ ہر شعبے میں کامیاب لوگوں کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لئے اور خود کو کامیاب کرنے کے لئے ہردم کوشاں رہتے ہیں۔
برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ کے پاکستانی ٹیم پرایک اور الزام یاسر حمید کی نئی ویڈیو کی شکل میں دیا ہے جس میں یاسر حمید نے کہا ہے کہ پاکستانی ٹیم کا تقریباً ہر میچ فِکس ہوتا ہے۔برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ شاید اپنے اخبار کو گرم کر کے اس کو مشہور کرنا چاہتا ہے۔دوسری طرف یاسر حمید نے اس الزام کو یکسر رد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اس قسم کے بیان کے لئے کئی ڈالرز کی پیشکش کی ہے لیکن اس نے بیان دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد برطانوی اخبارنے اس کے کیخلاف یہ ایک بھونڈاقدم اٹھایا ہے۔اس ویڈیو پر کئی افراد کے بقول وائس چینجر سے کام لے کر یہ کام کیا گیا ہے اور بعض کے بقول یاسر حمید کی مذکورہ ویڈیو اصلی ہے اور پاکستانی اخبار نے کہا ہے یاسر حمید کو پتہ نہیں تھا کہ کیمرہ آن ہے یا نہیں تو اس نے یہ بیان دے دیا۔
وسیم اور وقار کی ریوریس سوئنگ کا مقابلہ نہ کر پانے کی وجہ سے انگلش لابی سرگرم ہوئی۔عمران خان کی ریٹائر منٹ کے بعد ہی انگلش لابی نے اس وقت کے پاکستانی صف اول کے وقار یونس او ر وسیم اکرم اور عمران خان پر بال ٹمپرنگ کا الزام دے مارا۔اس کیس کو عمران خان نے تن تنہا نہ صرف انگلش جیوری کے سامنے جیت کر دکھایا بلکہ یہ بھی ثابت کروایا دیا کہ ناخن سے یا کپڑے سے گیند کو صاف کرنے سے بال ٹمپرنگ قطعاً نہیں ہوتی۔اب جب کہ انگلش ٹیم کے کئی کھلاڑی خود ریوریس سوئنگ کروا لیتے ہیں تو انہوں نے ناخن یا کپڑے سے گیند صاف کرنے کو جائز قرار دے دیا ہے۔
ایک وقت وہ بھی تھا جب شائقین کرکٹ کی دل کی دھڑکنیں محمد یوسف کی بیٹنگ کیساتھ دھڑکتی تھیں۔اس سال عالمی رینکنگ میں محمدیوسف پہلے نمبر پر، ٹنڈولکر دوسرے نمبر پر اور برائن لارا اور رکی پونٹنگ
ا س کے بعد آرہے تھے تو انگلش میڈیا نے محمد یوسف پر الزامات کی بو چھاڑ کر دی جس کارزلٹ یہ نکلا کہ اب محمد یوسف بہت ہی مشکل سے ٹیم میں واپس آیا ہے۔ایک عظیم بیٹسمین جس کو الزامات کی زد میں لا کر قومی ٹیم سے کِک آف کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔
شعیب اختر جو کہ اپنی سپیڈ اور باﺅلنگ کے لحاظ سے دنیا میں اب تک اہم ترین ہے۔اس کو بھی ہندوستان اور انگلش لابی نے پوری دنیا میں چرسی پوڈری اور عیاش بنا کر پیش کیا۔حالانکہ صورت حال یکسر مختلف ہے وہ بندہ ایک غریب فیملی سے ہے۔دولت کی چکا چوند اور حسین تتلیوں کی بھیڑ میں شاید اس نے کبھی مستی بھی کی ہو جو کہ اس کی ذاتی خامی ہو سکتی ہے لیکن اتنے بڑے کھلاڑی کو نشئی ظاہر کروانا ایک بہت بڑی سازش ہے۔اب جب کہ اس کی عمر نوجوان سے تھوڑا آگے جانے کو ہے تب بھی اس کی سنجیدگی کو ڈسپلن کی خلاف ورزی ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
محمد آصف بھی وینا ملک کی بانہوں میں ضرور جھولا ہو گا ۔اس کا ثبوت سب کے سامنے ہے لیکن اگر اس کی باﺅلنگ کی بات کی جائے تو اس کی پرفامنس بہت ہی اعلیٰ ہے۔اس نے ملک کو کئی اہم میچز جتوائے ہیں۔اس پر بھی ہندوستا ن اور انگلش لابی نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
جہاں تک مظہر مجید جیسے لوگوں کو تعلق ہے تو ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے نہ صرف قومی کرکٹ بورڈ کو چُپ کا درواز توڑنا ہوگا بلکہ بٹ صاحب جیسے چئیرمین کو فارغ کر کے حکومت کو کوئی ذمہ دار شخص سامنے لانا چاہیئے جو ملک کی عزت و وقار کا کم از کم دفاع کرنا تو جانتا ہو۔اگر ہماری حکومت جعلی ڈگری ہولڈرز کو کامیاب سیاستدان تسلیم کرنا جانتی ہے تو پھر اسے شعیب اختر، محمد آصف اور محمد عامر جیسے کھلاڑیوں کے دفاع اور ملک کی عظمت کے لئے کوئی قابل شخص بھی سامنے لانا ہوگا۔ورنہ مظہر مجید جیسے دھوکے باز لوگ اور برطانوی میڈیا میں موجود جھوٹے لوگ الزامات کی زد میں لا کر کہیںقومی کرکٹ ٹیم کو بین ہی نہ کروا دیں۔