URDUSKY || NETWORK

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

124

بھارت میں اس عید الاضحی کے موقع پر بھی گائے کی قربانی پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ ان کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ پاکستان کے وجود کا مقصد مسلمانوں کو مذہبی اور انسانی حقوق کی آزادی دلانا تھا،جس ملک میں ایک مسلمان کی جانور ذبح کرنے کی جرم کی سزا انسانی جان کا قتل ہو، اس ملک میں مسلمانوں کے حقوق اور مذہبی آزادی غیر محفوظ تصور کی جاتی تھی۔ پاکستان کے حصول کا مقصد عظیم تھا۔ قربانیاں عظیم تر تھیں۔ لیڈر بے مثال تھا لیکن اس ملک کو سنبھالنے اور چلانے والے بے ایمان اور بے وفا نکلے۔ ہر سال دسمبر کی پچیس تاریخ کو ”بابائے قومؒ کا یوم پیدائش نہایت جوش وجذبے کے ساتھ منایا گیا “کارٹا ر ٹایا جملہ بولاجاتا ہے جبکہ اس قوم میں وہ جوش رہا اور نہ ہی جذبوں میں وہ حرارت باقی ہے۔
بنانے والے اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر پاکستان بنا گئے۔ اپنے گھروںکو اجاڑ کر ایک آزاد ملک دئے گئے۔ اپنے گھروالوں کو لٹوا کر ایک پاک سرزمین دے گئے جبکہ اس نعمت کو پانے والوں نے اسے باپ دادا کی جاگیر سمجھا۔ اس ملک کو فار گرا نٹڈ لیا۔ اپنا پیٹ، بنک اور گھر بھرنے والوں نے اس ملک کو غیروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے۔شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک بار شہر بغداد آگ کی لپیٹ میں آگیا، اس حادثے کے باعث ہر شخص سوگوار تھا لیکن ایک شخص اس بات پر خوش دکھائی دے رہا تھا کہ اس کی دکان سلامت رہی۔ کسی نے اس کی حالت پر کہا ”اے سنگدل شخص!آدھا شہر جل کر خاک ہوگیا مگر تجھے اپنی سلامتی کی خوشی ہے ؟“
پاکستان میں ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے۔ بے یقینی کا ماحول ہے۔ خوف خدا کا تصور اب صرف انبیاءاور اولیاءکی تاریخ میں پڑھنے کو ملتا ہے، ملک جل رہا ہے،بے گناہ لوگ مر رہے ہیں، اس میدان جنگ میں بد رہے نہ احد۔کوئی شہید ہے نہ غازی۔ کوئی ہار ہے اور نہ جیتی ہوئی بازی ۔قائد اعظمؒ کی یوم پیدائش پر عام تعطیل اس قوم کے سونے کا ایک اور سنہرا موقع ہے۔میں نے یہ جملہ ایک تقریب میں کہا تو مہمانان گرامی میں سے ایک صاحب علم بولے کہ جب تک یہ قوم سوئی رہتی ہے، اس ملک میں امن رہتا ہے۔یہ قوم نہیں ایک فتنہ بن چکی ہے اور فتنے کا سویا رہنا ہی اچھا ہے۔بیہوش طبقے کو دھماکوں کی آوازوں سے بھی ہوش نہیں آسکتا۔ آزادی کے نام پر معرض وجود میں آنیوالی اس اسلامی ریاست پاکستان نے اپنے پہلے ۴۲ برس میں اپنے وجود کا ایک حصہ اپنا ایک بازو کٹوادیا۔ ایٹم بم کی پیش بہا دولت ملی تو اسے بھی گنوانے کے درپے ہے۔
امن کی جنگ لڑنے والا امریکہ اس ملک کے لہو میں زہر بن کر دوڑ رہا ہے۔ امن کے داعی کی دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ روسی انقلاب میں۹۱لاکھ افراد لقمہ اجل بنے، ۰۲لاکھ انسانوں کو ہولناک سزائیں برداشت کرناپڑیں اور تقریباً ۰۵لاکھ انسانوں کو جلا وطن کیا گیا۔روسی انقلاب سے قبل تاتار کے فتنے میں کم و بیش۰۱لاکھ انسانی جانیں تلف ہوئیں۔نپولین کی لڑائیوںمیں۷۱لاکھ بندے ہلاک ہوئے۔پہلی عالمگیر جنگ میں طرفین کے ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو کروڑ کے قریب زخمی و لاپتہ ہوئے۔روسی انقلاب کے بعد عالمگیر جنگ دوم میں پانچ کروڑ سے زائد انسان ہلاک اور زخمی ہوئے۔ امریکہ کی دہشت گردی، ظلم و بربریت کی ایک طویل فہرست پر خود امریکیوں نے بے شمار کتابیں رقم کی ہیں۔
اس مختصر کالم میں کربناک تفصیل میں جانے سے اپنے زخموں کو بار بارکریدنا اچھا نہیں، بات کا مقصد بابائے قومؒ کی یتیم مملکت کی حالت زار بیان کرنا ہے۔ایک امریکی تاریخ دن چارلس برڈ کا امریکہ کی نفسیات کے بارے میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ”دیر پا امن کے لئے دیرپاجنگ “ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مذکورہ مقولے کے پیش نظر امریکہ دنیا بھر میں۵۴۹۱ءسے تقریباً۰۰۲سے زائد حملوں کا مرتکب ہواہے اورامن قائم کرنے کے لئے دنیا کو میدان جنگ بنا دیا لیکن امن پھر بھی قائم نہ کر سکا۔ امریکا کی جنگ امن کے لئے نہیں دنیا کا امن چھین کر دنیا پر اپنی دھونس جمانا اصل مقصد ہے۔ امن کے لئے طویل جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والی سپر پاور نے پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ رکھا ہے ۔بھارت میں گائے ذبح ہوتی ہے تو مسلمان مارے جاتے ہے۔پاکستان میں عید ہوتی ہے تو مسلمان مارے جاتے ہیں۔بھارت میں ہندو مار رہا ہے تو پاکستان میں مسلمانوں کے بھیس میں شیطان مار رہے ہیں۔
کس قدر شرمندگی ہے کس قدررسوائی ہے….عید کے دن عید آکر بھی بہت پچھتائی ہے
پاکستان ایک ایسی بدنصیب ریاست ہے جس کے اپنے اس کے ساتھ مخلص نہیں۔کھاتے، پیتے، سوتے، جاگتے ، ہنستے ،گاتے ،بجاتے، کماتے اس ملک میں ہیں جبکہ گیت غیروں کے گاتے ہیں۔حکومت اس ملک پر کرتے ہیںاور دولت غیروں کے بنکوں میں جمع کرتے ہیں۔پاکستان کی معاشرتی تباہی کا سبب یہاں کے لوگوں میں حسد اور وی آئی پی کلچر کا سرطان ہے جبکہ اسی اقتصادی حالت کے ذمہ دار اس ملک کا سیاستدان اور بیوروکریٹ طبقہ ہے۔اس ملک کے یہی حالات رہے تو پاکستان کے اقتصادی وسائل، اسباب اور ایٹمی طاقت کا مستقبل بھیانک دکھائی دے رہا ہے۔مسلمانوں کی آزادی اور اسلام کے نام پر حاصل کے جانے والے پاکستان میں اس نبی ﷺکی امت بستی ہے جس نبیﷺکے جلال و جمال کی رعنائیوں، آغوش، رحمت اور شمشیر کے آئینے میں آنسو جھلکتے تھے،لفظوں سے نگینے جڑے تھے،جس کی مٹھی میں سنگریزے بول اٹھتے تھے، جس کے قدموں کی چاپ پر تارے رقص کرتے تھے، جس کے ایک اشارے پر چاند شق اور قبلہ بدل جاتا تھا۔ اس حبیبﷺ کی امت آج غیروں کے در کی بھکاری ہے؟ دور حاضر کے مسلمان بادشاہ اور حکمران کالی کملی اور سیاہ غلاف والے گھر کی غلامی کی بجائے قصر سفید(وائٹ ہاﺅس)کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے ہیں جبکہ بے سکون، بے بس اور مظلوم امت گنبد خضراءکے سائے تلے اورکبھی غلاف کعبہ تھامے گڑگڑا رہی ہے….
حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی….تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی