بے حس قوم
قومیں اپنی تہذیب ،رہن سہن، ثقافت، بول چال ، تہوار سے پہچانی جا تی ہیں اور وہ اس دائرہ میں رہ کر اپنی زند گی کو گزارتی ہیں وہ اپنے مذہب۔ ثقافت کو کبھی نہیں چھوڑتیں چا ہے کچھ بھی ہو جا ئے امریکی اپنے طور وطریقے سے رہتے ہیں زندگی گزارتے ہیں تو سعودی اپنے طریقے سے اپنی زندگی گزارتے ہیں اگر امریکیوں کی نام و نہاد تہذیب میں اور معاشرہ میں ”عورت “ کو ”حوس نفس“ اور”بازاری چیز“ بنا دیا ہے تو وہ ان کی پہچان ہے ۔ اگر ایشیا ءمیں اور اسلام میں عورت کو پردہ دیا گیا ہے اور اسے گھر کی مضبوط چاردیواری دی گئی ہے تحفط دیا گیا ہے تو وہ ہمارا مذہب ہے امریکیوں سے اس کا کو ئی تعلق نہیں مگر جب کو ئی سچے دل سے مسلمان ہو جا تا ہے تو یہی مذہب اسے ہر پر یشا نی سے بچا تا ہے
ہم پر اﷲ کا لاکھ لاکھ کڑوڑ کڑور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس گھرانے میں پیدا کیا جہاں اذان کی گو نج پیدا ہو تے ہی سنا ئی جا تی ہے تا کہ جب ہم بڑے ہو ں تو مسلمان کہلائیں
جب بچا پیدا ہو تاہے اس سکھایا جا تا ہے کہ جھوٹ بو لنا گنا ہ ہے اﷲ میا ں نارا ض ہو جا تے ہیںاور اسی کے سامنے اس کے بڑے ”سینہ چھوڑا“ کر کے جھو ٹ بو ل رہے ہو تے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رشوت حرام ہے اس کے رزق میں برکت نہیں رہتی ۔ تو اس پر بھی اسی طر ح عمل پیرا کیا جا تا ہے جسے ثواب کا کا م ہے۔ وہ کو ن سی برائی ہے جو ہم میں نہیں۔ لو ٹ مار۔ جگڑے۔ مار کٹائی، رشوت، زنا ، چوری چکاری، گالی گلوچ، نقطے بازی، شراب، ناجائز منا فع خوری ہر چیز ہم میں خون کی طرح چل رہی ہے۔ پھر بھی ہم” مسلمان “ ہیں کیا کمال کی با ت ہے۔ بے حسی کی بات ابھی کہاں ختم ہو ئی ہے ہم ”قوم “تو آج تک بن نہیں سکے ”گروہوں “میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ سرحد الگ گروہ ہے تو پنجاب الگ۔ ان کی آ بادی بھی الگ ہے تو وہ الگ گروہ میں کیوں نا جا ئیں۔ بلوچستان بلوچیوں کا ہے تو سندھ سندیوں کا۔پنجابی سند ہ میں چلا جا ئے تو اسی ایسا دیکھا جا تا ہے کہ کسی اور سیارے کا باشندہ ہے۔ کو ئی بلوچی سرحد میں چلا جا ئے تو اسے
”عجوبہ“ سمجھا جا تا ہے
یہ باتیں تو اپنی جگہ ہم تو وہ ” گروہ“ ہیں کہ اپنے” نجات “دہندگان کو ان کی ” ہمدردی“ کا پورا پورا پہل دیتے ہیں کسی نے“ قا ئد اعظم “کو شہید کر دیا تو کسی نے” قدید خان“ کو بدنام کر دیا کسی نے” بھٹو “کو شہیدکر دیا تو کسی نے” علامہ اقبال“ؒ کو برے برے” القابات“ سے نوازا اس وقت کے بڑے بڑے مولوی ۔ مولونا صاحبان نے جن جن” القابات“ سے علامہ اقبال ؒ کو نوازہ ۔اور قا ئد اعطم کو اس وقت کے جاگیردوروں و ڈیروں نے انگریز کا” ایجنٹ “قرار دیا۔اور ان کی باتیں نہیں سنتے تھے اور جب سر سید نے کہا کہ اپنے بچو ں کو پڑہائیں تو ان لوگوں نے جو آج ”پاکستان“ کے ” محافط“ بنے بیٹھے ہیں کہا کہ ہم کیوں پڑہائیں ہم تو ” وڈیرے ، جا گیردار“ ہیں ہم اپنے بچوں کے لئے اتنا کچھ حاصل کر چکے ہیں کہ سات نسلیں بھی کھا ئیں تو بھی ختم نا ہو
سوری بات تھوڑی دور چلی گئی بات ہو رہی تھی بے حسی کی تو وہ بات حقیقت ہے کسی نے اس”قوم “ کے لئے کیا ”فرمایا “ تھا کہ یہ قوم ڈالروں کے لیئے اپنی ’ ’ما ں“ بیچ سکتے ہیں تو ” آج “ وہ بات 200%ٹھیک ہے باقی آپ جانتے ہیں
ہمارے ملک میں آج تک سوائے ”اپنے“ فائدے کے کو ئی قانون نہیں پاس ہو سکا ۔ ویسے قانون غریبوں کی ”چمڑی “اتارنے کے موجود ہے اور امیروں کو ”پروٹوکول“ بھی یہی قانوں دیتا ہے۔ہمارے حکمران کبھی کسی جگہ سے گزریں تو وہ سڑک بلاک کر دی جا تی ہے چا ہے کو ئی مرے یا جئے آخر ان کو گزرنا تو ضروری ہے اس مرنے والے نے بھی تو ان کو وہاں تک پہنچنے کے لئے ” غلطی“ کی تھی اپنا ووٹ کاسٹ کر کے تو اسے اس کا خمیارہ بھی تو بھگتنا چاہیئے اپنے پیارے لیڈڑوں کے لئے اسے سڑک پر ایڑیں رگڑ رگڑ کر مر نا چا ہیئے
پتا نہیں ہماری”قوم“ کو کیا ہوتا جا رہا ہے گروہوں میں بٹ رہی ہے اورجو بھی حکمران آتا ہے وہ خود کو پتا نہیں کیا سمجھنے لگتا ہے لوگ تو شاید مل جا ئیں اپنے ملک کی ترقی میں شانہ بشانہ چل پڑیں مگر جو سیاسی ” کنڈے“ بیچھا دیئے گئے ہیں وہ لو گوں کو ملنے نہیں دے رہے کیونکہ ہمارے ملک کے عوام کو کالا با غ ڈیم سے بھی ان ” محب وطن“ سیاسی لوگوں نے دور رکھا ہوا ہے کو ئی کہتا ہے پانی کم ہو جا ئے گا تو کسی ” بے چارے“ نے وہاں زمینں لے رکھی ہو نگی جو حکومت کو ” بلیک میل “ کر نے کے کام آتی ہو نگی۔ اس ملک پر ان لوگو ں کا ہی نہیں بلکہ عوام کا بھی حق ہے جن کو اپنے پروٹوکول کے لئے زندگیوں کی سلامی دی جا تی ہے۔ قوم کو اس” بے حسی“ کی زندگی سے نکلنا ہو گا اور اپنے قول و فعل میں موجود تضاد کو ختم کر نا ہو گا کیو نکہ ہمارا ملک ہمارے ہا تھ سے جا ر ہا ہے ۔ ایک ایٹمی پاور ہو تے ہو ئے بھی ” فقیر“ بنتا جا رہا ہے۔ اگر اب انقلاب نا آیا تو تباہی مقدد ہو گی اور یہی انقلاب کا صیحح و قت ہے۔ ہر حال میں اپنی با ہمی رنجشوں ۔ اختلافات کو ختم کر نا ہو گا تا کہ پاکستان ایک پر امن اور ترقی یا فتہ ملک بن جا ئے
کالم۔۔۔امید بہار
ایم ظہیر بابر۔۔۔کھاریاں