بے ادبیاں رفیع رضا
اُردو ادب کی زوال پزیری کے اسباب پر جہاں میں تشویش کا اظہار کرتا رھتا
بے ادبیاںھُوں وھاں اُن اسباب کی صحافتی خبروں اور اطلاعوں کا عمل دخل بھی بہت زیادہ ھے۔جو خریدی اور بیچی جاتی ھیں۔پچھلے دنوں تسلیم الہی زُلفی جو ھمارے دوست شاعر ھیں اُنکے ھاں ایک ادبی محفل میں جانا ھُوا، محفل میں بیس سے کُچھ کم لوگ شامل تھے جو اُنکے گھر کی بیسمنٹ میں مُنعقد ھُوئی ۔محفل کیا تھی ایک شُکرانہ اور ایک ادبی کاروبار تھا۔جو مُلکوں مُلکوں اُردو کے فروغ کے نام پر جاری ھے
۔صورتِ حال یہ ھے ڈنمارک میں تسلیم الہی زُلفی صاحب کو بُلایا گیا اُن کے اعزاز میں کوءی محفل مُنعقد ھوئی اور میڈل دیا گیا۔۔۔۔یہ واقعہ جون سنہ ۲۰۱۱ میں ھُوا۔۔اور جولائی میں ڈنمارک سے ترغیب بُلند صآحب کو بُلایا گیا اور اُنہیں کراچی یُونیورسٹی کے کینیڈین طلباء قدیم کی طرف سے پانچ ھزار ڈآلر کا انعام پیش کیا گیا۔۔چلئے خوشی کی بات ھے۔۔اس ھاتھ دے اس ھاتھ لے۔۔
سٹیج پر کیول دھیر جو انڈیا سے آئے تھے تشریف رکھتے تھے ساحر لُدھیانوی اکیڈمی کے سرپرستون میں سے ھیں۔گاڑی میں دورانِ سفر میں نے پُوچھا کیول دھیر صآحب! جن صاحب کو یہ انعام دیا گیا ھے۔کیا وُہ اس کے مُستحق تھے ، فرمانے لگے نہیں۔۔
موصوف وھاں صدارتی خطبے میں ترغیب بُلند صآحب کو اس انعام کا حقدار ثابت کرنے کی کوشش کرکے آئے تھے۔۔اور اب یہ فرما رھے تھے۔اس سے ھمارے اُردو ادب کے زوال کے اسباب کا اندازہ ھوتا ھے۔۔،ترغیب بُلند نے ایک کتاب میں پُرانے نئے شُعرا کی شاعری کو اکٹھا کیا ھے۔اور ایک مجموعہ اُنکی اپنی شاعری کا ھے۔اُن کی شاعری جو اُنہوں نے سُنائی یک پرتی عشق و عاشقی کے سوا کُچھ نہیں
۔۔یہی حال اُنکے ساتھ بیٹھے دو اور "انٹرنیشل” شاعروں کا تھآ ایک جرمنی سے اور دُوسرے ناروے سے ۔۔۔دونوں بے وزن شاعری پڑھ گئے
۔واپسی پر تسلیم الی زُلفی صاحب نے اپنی کتاب سے نوازا ، کتاب کا نام ھے مغربی دُنیا کے اُردو اھلِ قلم ، شخصیت اور فن۔۔ یہ کتاب مارچ سنہ۲۰۱۱ میں چھپی ھے۔ اس میں تسلیم الہی زُلفی صاحب کے اپنے شہر کے معروف ترین ادیبوں اور شُعرا کے نام بھی نہیں۔۔تاھم تین مُبتدی شاعرات کے نام موجود ھیں۔
۔اور ۔عابد جعفری، نسیم سید، منیر پرویز، ڈآکٹر پرویز پروازی ،افضال نوید،ڈآکٹر خالد سُہیل، ڈآکٹر ڈینس آئزک سمیت بے شمار حقیقی ادیبوں شاعروں کے اسماءِ گرامی موجود نہیں! کیا یہ تسلیم الہی زُلفی صاحب کی کوتاہ نظری ھے یا ادبی گروہ بندی کا شاخسانہ؟۔۔کیا یہ ایک ادبی اور اخلاقی بددیانتی نہیں؟ بس یہی وُہ بد نُما شخصیت پرست عوامل ھیں جن کی مَیں ھمیشہ مذمت کرتا ھُوں اسی لئے میں ان جعلی جشنوں کے خلاف بولتا اور لکھتا رھتا ھُوں اور ھر طرف سے طعن و تشنیع سہتا ھُوں۔لیکن اھلِ ادب سے اور قارئینِ ادب سے یہ سوال کرنا بہت ضروری ھے کہ ھمیں یہ راستہ کہاں ، کس طرف کو لے جائے گا۔۔۔؟
کیا نااھلوں کو اھل ثابت کر کے ھم اپنی دینی اخلاقی اور ادبی ذمہ داریوں کے گُناہ کے مُرتکب نہیں ھو رھے؟۔۔اب تو یہ فیشن بن گیا ھے کہ علامہ اقبال یا فیض پر کتاب لکھو اور کہیں سے کوئی ایوارڈ وصول کر لو۔۔ایوارڈ دو۔۔ایوارڈ لو۔۔۔
ایک نئی خبر یہ ھے کہ انڈیا سے گوپی چند نارنگ اور کیول دھیر اب کینیڈآ آکر ایوارڈ دیا کریں گے۔۔جنکی نظرِ کرم بار بار ایک خاص گروپ پر ھی پڑتی ھے۔۔پروین شیر جیسی یک پرتی، اور کم تر شاعرہ کو جس طرح بامِ ثریا پر چڑھایا گیا ھے وُہ بے مثال ھے ۔۔اس میں ان محترمہ کی اپنی پسِ پردہ کاوشوں کا بہت ھاتھ ھے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پاس چُونکہ ھیروز کی کمی ھے بلکہ ناپید ھیں اس لئے ھیرو گھڑنے کی حکومتی کوششوں کو اُردو ادب والوں بھی بہت چڑھاوا دیا۔۔۔۔پاکستان جس میں مزدور کو روٹی میسر نہیں۔
۔اُس مُلک میں کھاتے پیتے ادیب ڈھول باجے کا انتظام کر کے فیض کی غزلوں نظموں پر سر دُھنتے ھیں ۔۔آخر اس سیاسی انعام پانے والے شاعر نے عام آدمی کو، مزدور کو کیا ترقی پسندی عطا کی؟۔۔۔یہی کہ آپس میں اُس کے نام کے میلے میں انعامات بانٹ لئے جائیں؟۔۔اسی لئے پچھلے دنوں مَیں اس نتیجے پر پہنچاھُوں کہ ادبی شُہرت کے زینے پر قدم رکھنے کے لئے۔ جشن، جعلی انعامات، پی آر میسر نہ ھو تو فیض یا علامہ اقبال پر ایک آدھ جھوٹی سچی کتاب لکھنا ضروری ھے۔
۔اور اب میں بھی ایسا ھی کرنے جا رھا ھُوں مُجھ اکیلے کو اس تماشے اور جعل سازی سے باھر رھنے کی کیا ضرورت ھے؟آئیے آُپ بھی بسم اللہ کریں، اللہ تعالی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ھوتا ھے۔۔۔پی آر کی پوری کوشش کریں، جشن منائیں تاکہ آپ کے جشن منائے جائیں۔۔!۔
بشکریہ کریئٹو رائٹرز فورم انٹرنیشنل