بھکاری
تحریر: ضمیر آفاقی
اقوام متحدہ کے ادارئے نے بتایا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو صاف پانی مہیا کرنے کے لیے بیس لاکھ ڈالر یعنی سترہ کروڑ روپے روزانہ درکار ہیں،دوسری جانب ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا کہ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں دو کروڑ انسان بے یارو مدد گار ہو گئے ہیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ کل جو ہاتھ دینے والے تھے آج ہاتھ پھیلائے ہیلی کاپٹروں کے آنے کے انتظار میں کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب ہر ایک کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال ہے۔ اس صدی کا سب سے بڑا قدرتی عذاب، دو کروڑ انسان شکار، ستر لاکھ بچے بھوک اور بیماری کا شکار تو دنیا کا دل کیوں نہیں پسیجا۔ عالمی برادری نے گذشتہ سال ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے ہر متاثر کے لئیے اوسطً چار سو پچانوے ڈالر دئیے تھے۔ اسی برادری نے اب تک پاکستان کے سیلاب متاثرین کو فی کس تین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ایسا کیوں ہو ا جواب سننے کے لئیے دل کڑا کرنا پڑے گا لیکن جواب ہے سیدھا سادہ۔عالمی برادری کہتی ہے جو دو ہزار پانچ کے زلزلے میں آپ کو دیا تھا اس کا کیا ہوا؟امت مسلمہ کے ان ممالک سے کیوں نہیں مانگتے جن سے یک جہتی کے ترانے گاتے نہیں تھکتے۔ برادر ہمسایہ ملکوں ایران اور چین کے آگے جھولی کیوں نہیں پھیلاتے۔ یہاں پاکستان میں لوگ سر ہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جذبہ کہاں گیا جو دو ہزار پانچ کے زلزلے میں نظر آیا تھا جب ہم نے کشمیر اور بالا کوٹ کی پہاڑیاں ریلیف کے ردی مال سے بھر دی تھیں۔ماہرین کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ دنیا میں ملک کا امیج اتنا خراب ہو چکا ہے کہ پاکستان کا نام سنتے ہی عالمی برادری وہی کہتی ہے جو ہم عادی بھکاریوں کو کہتے ہیں۔ یعنی ابھی تو دیا تھا تو پھر آگیا؟ اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو پھر بھی ہمارے اپنے ملک کے لوگوں سے وہ لوگ زیادہ اچھے ہیں جو انسان اور انسانی قدروں کا احترام کرتے ہیں سب کچھ سننے کے بعد بھی ہمارے لئے امداد مہیا کرتے ہیں ورنہ جو ہمارا چلن ہے کہ سب کچھ لینے کے باوجود ہم زمانے بھر کی گالیاں بھی انہیں دیتے ہیں اگر وہ بھی ہماری طرح کی سوچ کے انسان ہوں تو بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ”پرے ہٹ منگتے“یہاں ایک چھوٹا سا واقع نظر قارئین ہے۔
ایک آدمی اپنے اونٹ کو بڑی بے دردری سے ڈنڈوں سے پیٹ رہا تھا اونٹ اس مار پیٹ کے نتیجے میں چیخ چلا رہا تھا اس شور وو غوغا کے دوران وہاں پر کافی لوگ اکٹھے ہو گئے اور اونٹ والے سے استفسار کرنے لگے کی بھائی کیوں اس بے زبان کو مار رہے ہو؟ اونٹ والا یہ کہہ کر کہ اس نے بہت بڑا جرم کیا ہے پھر اونٹ کو پیٹنا شروع کر دیتا یوں لوگوں کا استفسا ر جب بڑھتا گیا تو اونٹ والے نے ڈنڈے والا ہاتھ روک لیا اور لوگوں سے مخاطب ہوا کہنے لگا بھائیو آپ نہیں جانتے کہ اس نے کتنا بڑا جرم کیا ہے ،لوگوں نے کہا آخر پتا بھی تو چلے؟ وہ کہنے لگا کہ میں ایک گلی سے گزر رہا تھا وہاں سے ایک بھکاری جو مانگے کی روٹیاں لئے جارہا رھا تھا بھی گزر رہا تھا ،میر ے اس اونٹ نے اس بھکاری کے ہاتھ سے روٹیاں کھا لی ہیں اور یہی اس کا جرم ہے کیونکہ اس نے ”منگے ٹکر کھال نئے ہن انہی گلی گلی منگنا ائے“ یعنی اس نے مانگے کی روٹیاں کھا لی ہیں اب یہ گلی گلی مانگے گا۔بھیک یا بھکاری کی نفسیات سے ایک اونٹ والا بھی باخبر تھا،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں آنے والا حالیہ سیلاب ایک بہت بڑی آفت کی شکل میں پاکستان کے شہریوں پر نازل ہوا ہے ،بتایا جارہا ہے کہ اس المیہ سے دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں اور ان کی امداد کے لئے عالمی برادری کو اپنا فرض ادا کرے ،فرض کے حوالے سے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے پہلے ہماری اپنی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس فرض کو یاد رکھیں ،پاکستان میں تقریباً بیس کروڑ افراد بستے ہیں جن میں خط غربت کے المیے کے شکار لوگوں کی تعداد سرکاری اعداو شمار کے مطابق پانچ کروڑ بنتی ہے انہیں نکال دیا جائے تو پندرہ کروڑ افراد بنتے ہیں ان میں سے کیا یہ تمام لوگ دوکروڑ متاثرین کے لئے کافی نہیں ؟ جبکہ آسودہ حال لو گوں کے حصے میں ایک فرد سے بھی کم کا تخمینہ بنتا ہے جبکہ اس ملک میں کروڑ پتیوں کی تعداد بھی کم نہیں ، یہاں تو ایک سرکاری اہلکار جس سے عوام کا واسطہ کسی کام کے سلسلہ میں پڑتا ہے بھی کروڑ پتی سے کم نہیں کے حصے میں ایک فرد سے بھی کم آئے گا ،اور پھر ہماری چاروں صوبائی اسمبلیاں ،سینٹ،اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے اور یہ تمام لوگ ”ہذا من فضل ربی“ سے لدے ہوئے ہیں اگر یہی لوگ پول کر کے رقم اکٹھی کرنی چاہیں تو سسکتی انسانیت کا بھلا ہو سکتا ہے،پاکستان سے ہر سال اس ماہ مقدس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ عمرہ کرنے جاتے ہیں اگر یہ لوگ بھوکی ننگی دوا دارو سے محروم اور صاف پانی سے ترستے ہوئے لاکھوں بچوں ،خواتین اور بوڑھے افراد کے لئے ایک برس اسے موقوف کردوں تو سسکتی انسانیت پھر سے جی اٹھے گی اور خدا بھی خوش ہو گا ، اسی طرح حج پر جانے والے لوگ بھی وہ پیسہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے دئے دیں تو یقین کیجئے ہمیں کہیں سے امداد کی اپیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اس ضمن میں ملک کے جید علماءکرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ حج ٍاور عمرہ اداکرنے والوں کو مشکل کی اس گھڑی میں جو امت پر آئی ہے باور کرا سکیں کہ اصل نیکی دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے بلکہ جہاں بات زندگی اور موت کی ہو تو وہاں تو اور بھی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے۔ کیا ہم کشکول کے بغیر زندگی گزارنے کے عادی نہیں ہو سکتے ۔