بھُولا ہوا سبق
بھُولا ہوا سبق
تحریر: آے آر اخلاص
با د لوں نے حدِ نگا ہ تک نہ صرف آسماں کو ڈھانپ ر کھا تھا بلکہ اس گہر ے انداز میں کہ دن میں رات کا گماں ہو نے لگا تھا ۔ بادلوں کے سا تھ ہوا ا س طر ح چل ر ہی تھی جیسے نو یلی د لہن ا پنے شوہر کے پیچھے پیچھے چلتی ہو ئی تہذیبِ مشر ق کی عکا سی کر رہی ہو۔ اس کا ہر جھو نکا طبیعت پہ یوں اثر انداز ہو ر ہا تھا ۔ جیسے مر د ہ جسم میں زند گی کی رمک ر فتہ رفتہ بیدا ر ہو ر ہی ہو ۔ پھر آسمان یوں کھُل کے بر سا کہ جل تھل ہو گئی ۔ بر آمد ے میں بیٹھے صو فی جی یہ منظر بڑے انہما ک سے د یکھ ر ہے تھے ۔ بے شک ان کی آنکھیں دلوں سے ٹپکتی ہو ئی بارش کی طرف تھیں مگر مجھے یقین تھا ۔ کہ وہ اس بارش کے اندرکسی اور ہی مو سم کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ کونسا مو سم دیکھ ر ہے ہیں ؟ یا ان کے اندر کو نسا مو سم چل ر ہا ہے ؟یہ تو صرف اُن کے اندر جا کر ہی معلوم کیا جا سکتا تھا۔صو فی جی کے د یکھنے کے انداز میں جو گہرا ئی تھی ،معلوم ہو تا تھا کہ وہ شا ید یہاں مو جود ہی نہیں ۔بلکہ اُن کی روح اُن کے جسم کو چھوڑ کر کسی اور جگہ ہی محو سفر ہے۔پھر ایک دم سے جیسے مورت میں جان آگئی ہو۔ صوفی جی نے تازہ ہوا کے جھونکے میں ایک گہر ی سا نس لی اور مجھ سے مخا طب ہو ئے ۔کاکے!پانی اور انسان ایک ہی بادل کے دو مختلف قطر ے ہیں۔ جس طر ح بادل کے سینے سے جنم لینے والا ایک بوند پانی بلند و با لا پہاڑوں کو روندتا ہوا قلزم کی شکل اختیار کر لیتا ہے اسی طرح ایک بوند پانی سے جنم لینے والا انسان کرہ ارض کو روندتا ہوا چاند پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھتا ہے ۔بادل کے سینے سے نچوڑنے والا یہ پا نی خش وخاشاک کو بہتا ہوا،در یا بنا تا ہوا،کھیت اور باغات کو سیراب کر تا ہوا ، سمندر کے سینے میں گم ہو جا تا ہے اور یوں بظا ہراپنے انجام کو پہنچ جا تا ہے۔ جہاں اسے پھر ایک نیا سفر کر نا ہوتا ہے ۔انسان بھی یوں ہی ایک بادل سے جنم لیتا ہے ۔وہ ایک ننھے سے وجود کے سا تھ زمین پہ آتا ہے پھر عمر ِطفل میں گھٹنوں کے بل سر کتا جا تا ہے بڑھتا جاتا ہے ۔پھر لڑکپن کی شکل میں ایک تیز رفتار ندی بن جا تا ہے جو جذبات کی رو میں بہتا ہے تو بہتا ہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ ندی ایک پرشور جوان نالے کی شکل میں رواں ہو نے لگتی ہے۔”جوانی “یہ بلندو بالا چٹا نوں پہ کڑک کے سا تھ بر ستا ہے ۔بڑے بڑے سنگلاخ پتھروں میں سوراخ کر تا ا نہیں ریگِ رواں کی طر ح بہا تے ہوئے ،نئی را ہیں بنا تا ہوا چلتا جاتا ہے پھر یہ پختگی اور قدرِ سنجیدگی کی طرف آتا ہے ۔اب ذرا ٹھراﺅ بھی آنے لگتا ہے ۔جہاں یہ در یا بن کی کسی کا پیٹ بھر تا ہے تو کسی کو سیرا ب کرتا ہے ،کسی کو غرق کر تا ہے ،تو کسی کو پار لگا تا ہے ۔ پھررفتہ رفتہ یہ معدوم اور خاموش سا ہو نے لگا تا ہے ۔ذرا معتبر سا دیکھنے لگتا ہے ،جو ایک زمانہ د یکھ کر آر ہا ہو جو ہر اونچ نیچ سے گزر چکا ہو۔ جس کے راستے میں ہزاروں موڑ آئے ہوں۔جو جہاں دیدہ ہو۔پھر آخر ایک ہچکی کے سا تھ یہ زمین کی گہرا یوں میں اُتر جا تا ہے ۔اور اسی کا حصہ بن جا تا ہے ۔ایک نئی زندگی کے آغاز کے لئے ۔جہاں اسے پھر ایک نیا سفر کر نا ہو تا ہے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کچھ لوگ نیل اور سندھ کی طرح ہو تے ہیں جن سے انسانیت کی کھیتی مسلسل سیرا ب ہو تی ر ہتی ہے ۔اگر ہم چا ہتے ہیں کہ ہمارے اندر بھی نیل اور سندھ جیسی روانی آئے تو ہمارے اندر بھی نیل اور سندھ جیسے خواص ہو نا ضروری ہیں ۔ایمان کے مستقل گلشیرز ہوں،یقین کی بار شیں ہوں،اور ننھی ننھی بوندوں کی طر ح مل کر خش وخاشاک کو بہا کر لے جانے وا لی قوت جیسا اتفاق و محبت ہو تو ضرور بقا دوام ہمارا مقدر ہو گی۔ جیسا مردِ مومن نے کہا ہے
یقین محکم،عمل پیہم،محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں