با تیں کرنے والی قومیں
تحریر: شہزاد اقبال – لاہور
مشہور مورخ آرنلڈٹائن بی نے کہا تھا کہ جب کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو ایک قدر ان میںمشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ اس معاشرہ کے لوگ اور سب کام چھوڑ کراپنے مسائل پرگفتگوکرنے لگتے ہیں ،قہوہ خانوںمیں ،گھروں میں ،دفتروں میںاور بازاروں میںحاکموںکی بد کرداری کا ذکرہونے لگتا ہے ،یونان کی تہذیب جب مٹ رہی تھی تو ہر طرف باتیںہی باتیں ہو رہی تھیںہر ایک دوسرے پر الزام لگا رہا تھا ۔آج ہم اگر پاکستانی معاشر ہ پر نظر ڈالیںتو ہم بھی باتیں کرنے والی قوم بن گئے ہیںہماری عوام کے ساتھ ساتھ حکمران بھی باتیں کرنے میںماہر ہو چکے ہیں ،حکمران اورحزب اختلاف کے سیاست دانوںکے پاس پارلیمنٹ،ٹی وی سٹوڈیوکے علاوہ عوامی میدان ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے زور خطابت کے ذریعے اپنے سوا سب کو برا سمجھتے اور کہتے ہیں،گزشتہ چند دنوں کے سیاسی منظرنامہ میں تو یہی کچھ نظر آیا کہ قوم ابھی 16 دسمبر کے سقوط ڈھاکہ کے غم سے نکلی نہیں تھی کہ ہمارے سیاست دانوں نے وہ طوفان بد تمیزی شروع کر دی کہ خدا کی پناہ، نواز شریف نے اگر مظفر آباد کے جلسہ میں ایم کیو ایم پر الزام لگایاکہ 11 سال آمر کے ساتھ رہنے والے انقلاب کی بات کرتے ہیں تو بھٹ شا ہ میںالطاف حسین نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیدیا ،زرداری صاحب نوڈیرو میں ہم کلام ہوئے تو ن لیگ لاہور سے بول پڑی ،مولانا فضل الرحمن،چوہدری شجاعت حسین اور عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ،الزامات کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آرہا ،الطاف حسین اور نواز شریف میں مناظرہ کی باتیں ہوتی ہیںتو ڈاکٹرذوالفقار مرزااور ایم کیو ایم میں نورا کشتی بھی دیکھنے کو ملتی ہے بہرحال باتیں ہیں ،کلام ہے،مقالمہ ہے اوربیانات ہیںجو حکمرانوں کی طرف سے عوام کو سننے کو مل رہی ہے اور عوام بیچارے تو ویسے بھی لوڈشیڈنگ،پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان بیٹھی ہے۔
پیپلز پارٹی جس کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ن ،جمعیت علمائے اسلام ف اور اب ایم کیو ایم حکومت سے علحیدہ ہو چکی ہیں سے گزشتہ 3 سال کے دوران اس جماعت سے اتنانہیں ہو سکاکہ وہ اپنے تا حیات چیرپرسن بے نظیر بھٹوکے قاتل یا قاتلوںیا کم از کم اس کامیاب سازش کے کرداروںکو ہی بے نقاب کر سکے ،عوام اور خاص کر جیالے اس عرصہ میںصرف باتیں ہی سن ر ہے ہیںاور لوگ حیران ہیں کہ آخر وہ کون سی وجوہات،رکاوٹیںاور مشکلات ہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی تمام تر وسائل کے باوجوداپنی قائدکے قاتل کی نشاندہی یااسے گرفتار نہیں کر سکی ۔صدر مملکت آصف علی زرداری کبھی کہتے ہیں کہ انتہا پسندوںنے بی بی کو قتل کیا ، کبھی کہا جاتا ہے کہ بیت اللہ محسود اس سازش کے پیچھے تھا کبھی کہا جاتا ہے کہ مجھے شہید بی بی کے قاتلوںکا علم ہے ، کبھی کہا جاتا ہے کہ جلد بی بی کے قاتلوںکو بے نقاب کروں گاکھب کبھی کہا جاتا ہے کہ بی بی کو اس سوچ نے قتل کیاجو انتہا پسندی کی حامل ہے کبھی بی بی کے قاتلوں کی گرفتار کے لئے 50 لاکھ ڈالر اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمشن کو دے دئیے جاتے ہیںاور جب اس کی رپورٹ آتی ہے تو اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے ،کبھی سکاٹ لینڈ یارڈقتل کو بے نقاب کرنے کے لئے آتی ہے ،کبھی ہماری تحقیقاتی ایجنسیاںاور کمیٹیاںمعاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشیش کرتی ہیں لیکن…….. اب کے بے نظیر کی تیسری برسی پر یہ کہا گیا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ حتمی ہو گئی ہے اور اسے پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیوکمیٹی کے اجلاس میںپیش کیا جائے گامگر اجلاس تو ہوتا ہے لیکن اس میںرپورٹ پیش نہیں کی جاتی ہے پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو اور وزیراعظم یو سف ر ضا گیلانی شریک اجلاس نہیں تھے اب کہا جا رہا ہے کہ سی ای سی کے اگلے اجلاس میں رپورٹ پیش کی جائے گی اور چند روز میں رپورٹ منظر عام پرآ جائے گی لیکن عوام باخبر ہیںکہ پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر ” برسی اسٹنٹ “پر کام کر رہی ہے۔27 دسمبرسے قبل راولپنڈی کے سابق پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کی گرفتاری محض دکھاوا ہے۔کل کلاں یہ بھی بریگڈئیرامتیازکی طرح بھاری عدالتی مچلکے داخل کراکرضمانت پررہا ہو جائیں گے اور نوڈیرو میں جو میلہ لگا ہوا ہے جلد ختم ہو جائے گاکہ میلے ختم ہونے کے لئے ہی لگتے ہیں آخر1500 سے2000تک چادریںبے نظیر بھٹو کی قبر پر چڑھا نے والوں کواپنی محبوب رہنما کے قاتلوں کی بھی تلاش ہے ۔نوڈیرو کے ایوان صدرسے نواز شریف پر کیچڑاچھالنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ کیا وفاق کی علامت شخصیت کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کریں ؟ ان کا منصب چاروں صوبوں کوجوڑنے اورمتحد رکھنے کا متقاضی ہے کیا وہ اور وزیراعظم آئے روزمفاہمانہ پالیسی کی جو باتیں کرتے رہتے ہیںکیا یہی مفاہمت ہے کہ آپ کے کرتوت آشکار ہوں توآپ دوسروں کے خلاف توپوں کا رخ کر دیں آخر پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنمالشکر رئیسا نی کو 3 سال بعدزبان کھولنے کا خیال کیوں آیا کہ راشد روف کے جیل سے فرار ہی بے نظیر کے قتل کا سر چشمہ تھا ۔
بس یہ باتونی سیاست ہے دو ہفتے یا زیادہ سے زیادہ ایک مہینے بے نظیر کی برسی کا شور ہوتا ہے ،اخبارات میں بے نظیر سے متعلق سپلیمنٹ شائع ہوتے ہیں،خصوصی اشاعت کا بندوبست ہو تا ہے، چینلز پر دستاویزی فلمیںدکھائی جاتی ہیں ،سندھ اوربلوچستان میں 27 دسمبر کو عام تعطیل کااعلان ہوتا ہے ،پولیس کے فول پروف انتظامات ہوتے ہیں ،لنگر تقسیم ہوتا ہے،صدر کابند احاطہ میںوی آئی پیز جیالوںسے خطاب ہوتا ہے ،آنسو بہتے ہیں ،فاتحہ خوانی ہوتی ہے ،وعدے ہوتے ہیں ،اعلانات اور بیانات جاری ہوتے ہیںاور پھر یہ میلہ اگلے سال کے لئے ختم ہو جاتا ہے … جئے بھٹو……اس بار بھی باتیں ہوئیں،بے نظیر کے قاتلوں کا ا نکشاف نہیںہو سکاکہ شاید یہ بھی زرداری صاحب کی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی طرح کوئی سیاسی حکمت عملی ہو یا پھر پیپلز پارٹی کی موجودہ وصیتی جانشین خود اس راز سے پردہ نہیں اٹھانا نہیں چاہتی لیکن عوام بہرحال پیپلز پارٹی کے رہنما اقبال حیدر کے اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ جنہوں نے مرتضیٰ بھٹو کو شہید کیااسی طا قت نے بے نظیر کو بھی شہید کیا۔