بادشاہت بھی دیکھ لی اور جمہوریت کا مزہ بھی چکھ لیا ‘اب کوئی انسان آئے اور انقلاب لائے۔
بادشاہت بھی دیکھ لی اور جمہوریت کا مزہ بھی چکھ لیا ‘اب کوئی انسان آئے اور انقلاب لائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام الناس کو اِس بات سے قطعئی دلچسپی نہیں ہے کہ اُس کا حاکم کوئی مورثی بادشاہ ہے یا اُس نے خود اپنے حکمران کا انتخاب کیا ہے۔عوام کو تو بس سُکھ اور چَین چاہیے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب حکمران اپنی رعایا کو اپنا کنبہ سمجھیں گے اور حاکم و محکوم کے باہمی روابط مستحکم ہوںگے۔محبت اور اپنائیت کا یہ عالَم ہوگا کہ رعایا اپنے بادشاہ کے حکم پر اپنا تن‘ من اور دَھن نچھاور کرنے میں فخر محسوس کریگی اور بادشاہ اپنی رعایا کی خدمت میں ہمہ وقت بے چَین نظر آئے گا۔جیسی خوراک وہ خود کھائے گا ویسی ہی خوراک اپنی رعایا کو بھی کھلائے گا۔اِس ضمن میں سب سے بڑی مثال آںحضرت محمّد مصطفٰے صلّی اَﷲ ُعلیہ وسلّم کی ہے۔ آپ بحیثیت ایک فرماں روا کس طرح عوام الناس کے دل جیتتے رہے ‘ یہ بات مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی جانتے ہیں۔جب مشکل وقت آیا تب پہلے آپ نے اپنے پیٹ پر پتھّرباندھاپھر دوسروں کو ایسا کرنے کی ہدایت کی۔گُڑ کھانے سے پہلے اپنا ہاتھ روکا پھر بچّے سے کہا کہ گُڑ زیادہ مت کھایا کرو۔ خلفا راشدین نے بھی حکمرانی کے جو انداز اختیار کیے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی ہُوئی نہیں ہے۔اَﷲ کے رسول حضرت محمّدصلّی اﷲعلیہ وسلّم نے اپنے آخری خطبے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اَﷲتعالیٰ عنہہُ کو اپنا بہترین رفیق قرار دیا تھا ۔اِس القاب وخطاب کی کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔حضرت ابوبکر ؓ نے خلیفہ منتخب ہوتے ہی اپنی رعایا کو اپنا محتسب قرار دیا اور کہا کہ وہ اگر کج روی اختیار کرتے ہوے نظر آئیں تو عوام انھیں دوبارہ سیدھی راہ پر لگادیں۔جب قوم کو مالی امداد کی حاجت درپیش ہُوئی تب حضرت ابو بکر ؓ کا نام سرفہرست نظر آتا تھا۔خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اَﷲتعالیٰ عنہہ ُ نے بچّے کی ولادت ہوتے ہی اُس کاوظیفہ مقرر کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔حضرت عثمان رضی اَﷲتعالیٰ عنہہُ کی سخاوت نے اُنھیں غنی کے خطاب سے سرفراز کیا۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہُ کمر سے پٹکا باندھ لیتے تھے اور ہاتھ میں دُرّے لے کر کوفہ کے بازار میں اوزان چیک کرتے پھرتے تھے۔کیا آج کا کوئی حکمران ایسی کوئی مثال پیش کرسکتا ہے اور صدّیق‘ فاروق‘ غنی یا اسد اُﷲ جیسے خطابات حاصل کرنے کاجواز پیش کرسکتا ہے۔ بعض قارئین شاید یہ کہیں کہ خلفا راشدین کی بات جانے دیجیے ‘ وہ تو محمّد رسول اُﷲ کے تربیت یافتہ تھے۔تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ اَکثر مسلمان بادشاہ ایسے بھی گزرے ہیں جن کے نام سنہری حروف میں لکھے گئے ہیںاور اُن بادشاہوں کی مَوت واقع ہوجانے پر پوری قوم مدّتوں افسردہ رہی ہے۔
حضرت امیر معاویہ ؓ کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اُنھوں نے اِسلام کے شُورائی نظام کو تبدیل کرکے بادشاہ انہ نظام رائج کیا۔یہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی سلطنت کو اُس وقت توسیع حاصل ہوتی ہے جب حکمران کو عوام الناس کی تائید شامل رہتی ہے کیونکہ فوج کشی یا اداروں کے استحکام کے لیے عوام کی حمایت اشد ضروری ہے۔زمانے کی تاریخ خواہ کسی نے بھی لکھی ہو ‘ سب اعتراف کرتے ہیں کہ امیر معاوہؓ کے عہد میں عوام خوشحال ہوگئے تھے اوراِسلامی سلطنت بہت وسیع ہوگئی تھی۔حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دَورِ حکومت میں عدل و انصاف کا بول بالا تھا اور عُسرت لغت تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔صدقہ اور زکوٰ ة دینے والے تو بے شمار تھے لیکن لینے والے ناپید ہوچکے تھے۔ ۰۵۷ءمیں عباسیوں کی قائم ہونے والی حکومت یا عبّاسی عہد بھی سنہری زمانہ کہلاتا ہے۔بہت ممکن ہے ‘ آپ چند حضرات یہ کہیں کہ وہ عرب کے خالص مسلمان تھے جنھیں اَﷲ تعالیٰ کی نصرت اور تائید حاصل تھی۔
ہندوستان میں نظام سلطنت چلانے والے بعض مسلمان بادشاہوں کی عوامی خدمات بھی لائق تحسین و آفرین ہے۔مثلاً جنوبی ایشیا میں عنان اقتدار سنبھالنے والا پہلا مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک بیک وقت ہندوستان اور غزنی میں پر امن حکومت کر رہا تھا۔جبکہ اُس کی آمد سے پہلے مختلف فرقوں میں بٹے ہوے ذات پات کے متوالے ہندو راجے اور مہاراجے باہم دھینگا مشتی کرتے رہتے تھے اور مسلمان بادشاہ فتوحات کے جھنڈے گاڑتا چلا جا رہا تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہردل عزیز بادشاہ کی سلطنت وسعت اختیار کرتی ہے جبکہ ناپسندیدہ حکمرانوں کی حکومت سکڑجاتی ہے۔علا الدین خلجی نے حکومتی امور میں علما کو شامل کیا جس کے باعث اُس کی سیاست دین کے تابع رہی اور حکومت کے اہلکار شتر بے مہار نہ ہوے۔علاالدین نے ذمینداروں پر ٹیکس عائد کیا اور اُ س سے حاصل ہونے والی رقم کوعام رعایا کی فلاح بہبود پر خرچ کیا۔بادشاہ خلجی‘ اناج اور بنیادی ضرورت کی قیمت پر گہری نظر رکھتا تھا۔غیاث الدین تغلق بھی ایک مسلمان بادشاہ تھا لیکن اپنی ناقص عقل کے باعث پاگل بادشاہ کہلاتا تھا۔وہ اپنا دارالخلافہ کبھی شمال میں قائم کرتا تھا اور کبھی جنوب کی طرف لے کر چلا جاتا تھا۔
خیر! میری گفتگو کا موضوع یہ ہے کہ قوم کو اِس بات سے قطعئی دلچسپی نہیں ہے کہ اُس کا حکمران کوئی بادشاہ ہے یا شورا کا چنا ہُوا کوئی خلیفہ ہے ‘ اُسے تو بس زندگی گزارنے کی سہولت چاہیے ۔اُس کے سر پر سائبان ہو اور اُس کی روزی روٹی کے حصول میں کوئی دُشواری حائل نہ ہو۔اُس کا راستہ پرخطر نہ ہواور وہ اگر وہ بیمار پڑجائے تو دَوادارو اُس کی دسترس میں ہوں۔اُس کی عزّت نفس سے کھیلنے کی کوئی جُرات نہ کرے اور اگر ایسا ہوجائے تو اُس کو بلا تامّل انصاف مہیّا ہوجائے۔
ہمارے ملک میں مارشل لاکی شکل میں بادشاہ بھی آئے اور ڈھول تاشے کی جلو میں خلیفہ بھی نامزد کیے گئے لیکن قوم کی حالت بدتر سے بدترین ہوتی چلی گئی۔کھانے پینے کی اَشیا کا معاملہ ہو یا علاج معالجے کی بات ہو‘ ہمارے بادشاہ اور خلیفاو¶ں کو اِس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ایک ہی شہر میں دودھ اور دالیں مختلف بھا¶ میں مل رہی ہیں۔میوے اور پھل‘ غریب بے چارے کیا جانیں‘ متوسط طبقے کی دسترس سے بھی دُور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔آدمی کا گھروں سے باہر نکلنا خطروں کو گلے لگانے کے مترادف ہوگیا ہے۔صرف شہر کراچی میں اوسطاً پانچ افراد روزآنہ مَوت کے منہ میں دھکیل دیے جاتے ہیں یا اپاہج بنادیے جاتے ہیں۔ایک طرف زمینوں اور گھروں پر قبضے کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور دوسری طرف جمہوریت کی راگ الاپی جارہی ہے۔بھاڑ میں ڈالو تم اپنی جمہوریت کو ….ہمیں تو انسانیت کے سپرد کرو۔