انسانی بم ۔۔۔۔ رگوں میں بارود کون بھر رہا ہے؟
انسانی بم ۔۔۔۔ رگوں میں بارود کون بھر رہا ہے؟
تحریر: ارفع رشید عاربی
دہشت گردی ہر دور کا اہم مسئلہ رہی ہے اور ہر دور میں ہی دہشت گردی کے لیے نت نئے طریقے اختیار کیے گئے ۔ لیکن اب خود کش حملے دہشت گردی کا سب سے بڑا ہتھیار بن کر سامنے آئے ہیں ۔ دیگر بموں کی موجودگی کا پتہ لگا کر انھیں نا کارہ بنایا جا سکتا ہے اور تباہی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے لیکن انسانی بم کے خاتمے کی کوئی ترکیب ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی۔خود کش حملہ آور اپنے ساتھ ساتھ بہت سے بے قصور افراد کی جانیں لے لیتا ہے۔ جس کا بظاہر بنیادی مقصد ملکی حالات میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنا ہوتا ہے تا کہ شر پسند عناصر اپنے مفادات کی بآسانی تکمیل کر سکیں۔ ان خود کش حملوں کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً اپنے سے بڑی طاقت کا مقابلہ کرنا، اپنی طاقت کو بچا کر مخالفین کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا، آزادی کی جنگ ، خوف و ہراس پھیلانا، سیاسی دشمنی وغیرہ وغیرہ۔ اب تک دنیا کے بہت سے ممالک ان خود کش حملوں کا شکار ہو چکے ہیں۔جن میں عراق، افغانستان، سری لنکا، بھارت،بنگلہ دیش، چین، کولمبیا، کروشیا ، مصر، انڈونیشیا، فلپائن، قطر، سعودی عرب،ترکی، یمن، ازبکستان، برطانیہ،امریکہ، ارجنٹائن، فلسطین، الجیریا، اسرائیل، اردن ، کینیا، کویت، لبنان، ماسکو ، پانامہ اور تنزانیہ شامل ہیں۔ افسوس! اب وطنِ عزیز پاکستان بھی گزشتہ ایک دہائی سے اس فہرست میں شامل ہو چکا ہے ، اور یہاں دہشت گردوں کی لگائی ہوئی آگ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جس سے بے گناہ پاکستانیوں کی جانوں کا مسلسل ضیاع اور حکومتی دعوے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔
وہ بھی کیا دن تھے جب وطنِ عزیز ہر قسم کے انتشار سے محفوظ امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور پاکستانی شہری دنیا میں بد امنی کے واقعات سُن کر کانوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے مساجد سکول و کالج اور دفاتر غرض ہر جگہ بلا خوف و خطر جایا کرتے تھے مگر آج ہر فرد اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ہے کہ کیا معلوم گھر سے جانے کے بعد واپس بھی پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ کیونکہ خود کش حملوں میں کمی کی بجا ئے اضافہ ہو رہا ہے۔اس کا اندازہ گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے خود کش حملوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2007 ءمیں57 خودکش حملے اور 787 ہلاکتیں ہوئیں، 2008 ءمیں 60 خود کُش حملوں میں 917 ہلاکتیں ہوئیں، 2009 ءمیں 80 خود کش حملوں میں 1018افراد لقمہ اجل بنے ، جبکہ 2010 کی پہلی تہائی (یعنی پہلے چار مہینوں) میں ہی تقریباً 33 خود کش حملے ہوئے جن میں تقریباً571 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ لہٰذا ان بڑھتے ہوئے خود کش حملوں کی بدولت ملک میں بے سکونی کا عالم ہے۔ ہر جگہ ، ہر مقام پر پہرے دار اور سیکورٹی گارڈ حفاظت پر مامور ہیں ، جگہ جگہ ناکے لگے ہیں اور بے چارے عوام جہاں ایک طرف خود کش حملوں سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف سیکورٹی اہلکاروں سے کیونکہ پولیس کے ہاتھ عوام کی جیبیں ٹٹولنے کا موقع آ گیا ہے لیکن شاید ہی انھوں نے کسی خود کش حملہ آور کی نشاندہی کی ہو۔ عوام اسی پریشانی میں مبتلا ہیں کہ ان خودکش حملوں کی وجوہات کیا ہیں؟ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ کون ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ آخر اس ملک کے لوگ کب تک دہشت گردی میں جھونکے جاتے رہیں گے؟ خود کش بمبار اتنا بھی نہیں جانتے کہ وہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا قتل عام کر رہے ہیں؟ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ ہماری سوچوں ،جذبوں اور ہماری رگوں میں کس نے بارود بھر دیا ہے؟ کوئی تو جواب دے کہ یہ سب کیا ہے؟ حضرت قائداعظم ؒ کے پاکستان کو کس طرح کا پاکستان بنا دیا گیا ہے؟یہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے اور بات چوری چکاری، ڈکیتیوں اور ناجائز طاقت کے استعمال سے ہوتی ہوئی خود کش حملوں تک جا پہنچی ہے اور وقفہ وقفہ سے ان کا سلسلہ جاری ہے۔ دہشت گردوں نے پہلے پشاور کو اپنا ٹارگٹ بنائے رکھا اور پھر انتہائی تیزی کے ساتھ اپنا دائرہ وسیع کرتے ہوئے راولپنڈی،اسلام آباد ، کراچی ،ملتان اور لاہور کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا بلکہ خوف و ہراس کو وسعت دینے کے لیے دوہرے خود کش حملوں کی پالیسی اپنا لی ۔ پاکستان میں نیول وار کالج لاہور میں ہونے والا خود کش حملہ اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا ۔ البتہ 27دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ایک سے زائد قاتل تاک میں تھے ۔ تازہ ترین دوہرا خود کش حملہ آر اے بازار لاہور کینٹ میں 12مارچ 2010 کو ہوا۔جس میں سیکورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت 62 افراد جان کی بازی ہار گئے، کئی گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی اور بے چارے عوام حکومت اور سیکورٹی اداروں سے امیدیں لگانے اور دہشت گردوں کو بد دعائیں دینے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ لیکن ہماری حکومت اور سیکورٹی ادارے اب تک مناسب ہتھیار اور آلات نہیں خرید سکے کہ کم از کم شہری آبادیوں میں ہی بڑی تعداد میں آنے والی بارودی گاڑیوں کو سکین کر سکیں۔ یہاں ناکے تو بہت لگائے جاتے ہیں لیکن نتیجہ سب جانتے ہیں ۔ صدر، وزیراعظم اور دوسرے سیاسی راہنماؤں کے لیے تو فول پروف گاڑیوں کا انتظام ہے ، لیکن عوام ۱ﷲ کے رحم و کرم پر۔ کیونکہ عوام صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہی طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں بعد میں بھیڑ بکریوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تو پھر ان کی جانوں کی کیا اہمیت؟
ہمارے حکومتی ارکان ”دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی جنگ ہے“ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے، لیکن جس کے لیے ہم یہ جنگ لڑ رہے ہیں دراصل وہی ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی خطرناک دشمنی تکون ہمیں اپنے جال میں بری طرح جکڑ کر ختم کر دینے کے در پہ ہے۔9/11 کے فوراً بعد پاکستان نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر جو بڑی غلطی کی تھی آج اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔امریکہ کو پاکستان کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ افغانستان سے اپنی فوجوں کو بھگا کر کہاں لے جائے گا؟آخر کوئی نیا ٹھکانہ بھی تو ہونا چاہیے نا۔ امریکی سینیٹر جوزف بائیڈن کے مطابق امریکہ کی سلامتی پاکستان کے مستقبل سے وابستہ ہے۔اگر پاکستان بنیاد پرستوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تو امریکہ کو نقصان ہو گا۔کیا انھیں یہ معلوم نہیں کہ وہ خود پاکستان میں گولہ بارود اور ڈالروں کے انبار لگا کر پاکستانی قوم کو لڑوا رہا ہے تو پھر کس سلامتی اور مستقبل کی باتیں کرتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے شروع دن سے ہی منافقانہ چال اپنائے رکھی ہے۔ وہ سوچتے کچھ، بولتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔اپنے مفاد کے لیے اپنی ہی باتوں اور وعدوں سے انحراف کرتے ہیں۔اور پاکستان کو اس جنگ میں جھونک کر تقریباً آٹھ کروڑ ڈالر ماہانہ کی تھپکی دیتے رہتے ہیں تا کہ پاکستان ان کی کسی بات سے تردید کی زحمت نہ اٹھائے ۔
یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ کیا ہم ہر بات کا الزا م اغیار پر لگا کر خود اس سے مبرا ہو سکتے ہیں کہ دوسروں ہمارے ملک کے حالات خراب کر دئیے ، کیا ہم خود بھی اس کے ذمہ دارنہیں؟ آزادی کے 62 برسوں کے بعد بھی ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کو پہچاننے میں ناکام رہے اور منزل کا تعین نہ کر پائے۔ ہماری سوچ اور سیاسی فکر میں پختگی نہ آئی ۔ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے اور یوں ہماری نفسیات میں نا امیدی نے پنجے گاڑ لیے ۔ ہم با صلاحیت ہونے کے باوجود دوسروں کو دیکھ کر لاغر بنے رہے ۔ عقل و دانش کو زنگ آلود ہونے دیا اور یوں دوسروں کے شکار بن گئے۔کیونکہ جن کے اپنے کوئی نظریات نہ ہوں وہ دوسروں کے نظریات و خیالات کی تکمیل کے لیے بطور آلہ کار استعمال ہوتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں خود کش حملوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ نوجوانوں میں سے اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو خود معاصر صورتحال کا بہتر ادراک نہیں کر پاتے اور شر پسند عناصر و اغیار کی سازشوں کی تکمیل میں معاونت کرتے ہیں ۔ مبصرین کے اس خیال سے تو ہر پاکستانی اتفاق کرے گا کہ خود کش حملوں میں جن نوجوانوں نے اپنی جان دی اور دوسروں کی جان لی ان کی بڑی تعداد ایسے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی جہاں غربت ،جہالت، پسماندگی، خواندگی اور سماجی اعتبار سے مایوسی کے حالات نمایاں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں وہ عناصر زیادہ بااثر رہے جنھوں نے مذہب کے نام پر سادہ لوح نوجوانوں کو گمراہ کر کے خود کش حملوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا۔ برین واشنگ کے ایک موئثراور مسلسل عمل کے ذریعے انھیں باور کروایا گیا کہ ان کے سیاسی و نظریاتی مخالفین اور بے پردہ خواتین واجب القتل ہیں۔ انھیں کافرانہ نظام کے خاتمہ کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے پر جنت کی نوید سنائی جاتی ہے۔لیکن سوچیں کیا یہودی، ہندو، تامل ،ماﺅ اور دیگر اقوام کے خودکش حملہ آور بھی ”جنت“ جانے کے طلبگار ہوتے ہیں؟باقاعدہ خود کش حملے تو جاپانی فضائیہ نے 1944 میں شروع کیے تھے جنھیں ” جنت “ کی کوئی امید نہیں تھی۔ در اصل خود کش حملہ کرنا، انسان کا خود بم بن کر دوسرے انسان کو ہلاک کرنا انتقام اور نفرت کی آخری حد قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کیفیت تک پہنچنے کے لیے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مرنے والا ہر نوجوان دنیا کو ایک ہی پیغام دیتا ہے کہ موت کا خوف سب سے بڑا خوف ہوتا ہے ، لیکن جو شخص اس پر قابو پا لیتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ اسی لیے خود کش حملہ دہشت گردی کا ایسا حربہ ہے جس کا دنیا کی کسی حکومت کے پاس توڑ نہیں ۔ ہر ملک میں ان حملوں کی وجوہات بھی مختلف رہی ہیں۔ اس خطرناک ہتھیار کا استعمال فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف اپنی آزادی کے حصول کے لیے کیا۔عراقیوں نے امریکی افواج کے ظلم کے خلاف استعمال کیا اور افغانستان میں اسے امریکی و متحدہ افواج کے انخلاء کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی کاروائیاں ہیں جنھیں مرحلہ وار آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ یہ کسی غیر منظم ، سیاسی یا مذہبی گروہ کا کام نہیں بلکہ اس میں ایسے ادارے ملوث ہیں جن کے پاس مالی وسائل اور ہتھیاروں کی کمی نہیں۔ان قوتوں کا اصل مقصد پاکستان کی فوجی طاقت پر ضرب لگا کر اس کی دفاعی صلاحیت کو کم کرنا، ایٹمی پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنا، عوامی مقامات پر حملے کر کے عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اور ان کا مورال کم کراہنے۔ویسے بھی دشمنی تکون کو ایٹمی پاکستان ہضم نہیں ہو رہا۔ اور پھر اس قسم کے ناپاک اور ملک دشمن اقدامات کوئی بھی ملکی ، مذہبی یا سیاسی پارٹی اور دیگر لسانی گروہ نہیں سوچ سکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت محض باتوں میں اپنا وقت صرف نہ کرے۔ بلکہ عملی اقدامات کئے جائیں ۔ ہمارے نوجوانوں کو ایسی ٹریننگ دی جائے کہ وہ ان سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے پائیں اور انتہا پسندو شر پسند عناصر کے چنگل میں نہ پھنس جائیں۔ اس کام کے لیے اساتذہ کو پریفنگ دی جائے۔دوسری طرف حکومت ان شرپسندوں یا دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا پتہ لگاکر ان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتی جائے تا کہ ملک سے ان کا صفایا کیا جاسکے۔
حکمرانوں کا طرزِ عمل دیکھتے ہوئے یہ باتیں محض خام خیال ہی لگتی ہیں ۔ کیونکہ ہر خود کش حملے کے بعد جائے وقوعہ سے دہشت گرد کا سر اورٹانگیں تو مل جاتی ہیں مگر مزید کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ حکومت اور اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے مذمتی بیانات بھی آ جاتے ہیں جن میں القاعدہ یا طالبان کوذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے، لیکن ان واقعات کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی وضع نہیں کی جاتی۔پھر اگلے خود کش حملے تک مکمل خاموشی اختیار کر کے کانوں میں روئی ڈال لی جاتی ہے تاکہ مجبور عوام کی آواز بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے۔
2010 ءکے آغاز میں ہی جس تیزی کے ساتھ خود کش حملے ہوئے ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ حالات کس کروٹ بیٹھیں گے۔ آخر ان خود کش حملوں کا انجام کیا ہو گا اور یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ایسے میں حکومت کے ساتھ ساتھ یقینی طور پر ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا ہو گا، تب ہی بات بنے گی کہ ہم سب بے حسی کا طوق گلے سے اتار پھینکیں ۔ نفرتوں کے دروازے خود پہ بند کر دیں اور اس ملک کے شہری ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے فرائض و ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کریں ۔ اپنے مسائل خود حل کریں غیروں کو یہ اختیار نہ دیں کہ ان کی بندر بانٹ میں ہم خالی ہاتھ رہ جائیں ۔ تبھی ہم غیروں کی اس جنگ میں جیت کے قابل ہو جائیں گے۔ اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔(آمین)۔
تحریر: ارفع رشید عاربی