آئینے کے اُس طرف
آئینے کے اُس طرف
تحریر: عثمان حسن زئی
[email protected]
بدھ8 ستمبر 2010ءکو ایک معاصر اخبار میں جناب حسنین جمیل کا کالم نظرنواز ہوا ہے۔ فاضل کالم نگار نے لکھا ہے:
”سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک بار پھر اسی فہرست کا چرچا کیا گیا ہے جس میں 1990ءمیں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی ہدایت پر آئی ایس آئی سے مبینہ طور پر 14کروڑ روپے لینے والے سیاست دانوں اور صحافیوں کے نام شامل ہیں۔ اصولی سیاست کے علمبردار میاں نواز شریف نے بھی اس بہتی گنگا میں 35 لاکھ روپے کا اشنان کیا تھا۔“ آگے انہوں نے لکھا ہے: ”ہے کیس 1996ءسے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ موجودہ آزاد عدلیہ بھی اس حوالے سے پر اسرار طور پر خاموش ہے۔ آخر کون سی طاقت آزاد عدلیہ کو اس کیس کی سماعت سے روک رہی ہے؟“
فاضل کالم نگار نے بنیادی سوال یہ اٹھایا ہے کہ آخر کون سی طاقت آزاد عدلیہ کو اس کیس کی سماعت سے روک رہی ہے؟ اس کا بالکل صحیح جواب صرف اور صرف معزز عدلیہ ہی دے سکتی ہے کیونکہ وہی اس حوالے سے کچھ بھی کہنے کی مجاز ہے لیکن اتنی استدعا تو غالباً کی ہی جا سکتی ہے کہ معزز عدلیہ اس کے متعلق مناسب اقدام اور فیصلے صادر فرما دے تو یہ مسئلہ یقیناً حل ہوجائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام فریقین جن سے فاضل کالم نگار کواس حوالے سے گلہ ہے۔ عدالت میں اپنی صفائی پیش کرسکیں گے۔ جوان کا اخلاقی، قانونی اور آئینی حق بھی ہے۔ مزید یہ کہ فاضل کالم نگار نے صرف اس ایک رقم کا ذکر کرکے نواز شریف صاحب پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اور اس کالم میں بنیادی طور پر نوازشریف صاحب کا نام سب سے پہلے آیا ہے لہٰذا وہ سب سے پہلے معزز عدالت میں حاضری دے کر اپنا موقف پیش کر دیں۔ اس پر یقیناً معزز عدالت خود مناسب اور عین حق و انصاف پر مبنی فیصلہ صادر کردے گی۔ کسی کو کوئی شکایت نہیں رہے گی۔ اب یہاں پر کیا فاضل کالم نگار سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو ڈھائی سال ہورہے ہیں اس نے عوام سے روٹی،کپڑا اور مکان کے وعدے پر اور مہنگائی کو لگام دینے، بدامنی پر قابو پانے کے وعدوں اور دعووں پر ووٹ حاصل کیے، ایوان اقتدار تک پہنچ گئی۔ اس دورانیے میں ان وعدوں کو کہاں تک پورا کیا گیا؟ کیا یہ ہمارے لیے افسوس ناک اور سنگین صورت حال نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صرف ماہ اگست 2010ءمیں 170 بدنصیب مار دیے گئے۔ باقی ملک میں امن وامان کی دگرگوں ہوتی صورت حال کوئی سربستہ راز نہیں۔ملک میں لاکھوں بیوائیں، یتیم، بے آسرا، بے گھر، لنگڑے، لولے، معذور، محتاج ہیں، آیا ان کے لیے بھی کوئی بابراعوان صاحب باہر آئے ہیں؟ مشرف نے آٹھ سال میں جتنے قرضے قوم پر لادے، اتنے پیپلزپارٹی نے ڈھائی سال میں لادیے ہیں۔ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کا یومیہ خرچا کتنا ہے اور دونوں کے غیرملکی دوروں پر اب تک کتنے اخراجات ہوچکے ہیں اور ان کے شاہانہ اخراجات بدستور جاری ہیں۔ سیلاب زدگان کے حوالے سے موجودہ حکومت کی اب تک کیا کارکردگی رہی ہے۔ وفاقی کابینہ کہاں غائب ہے اور اس پر یومیہ کتنا خرچا ہورہا ہے اور اس کے عوض وزراءملک وقوم کے کون کون سے کام پورے کررہے ہیں۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں کتنے قرضے معاف کروائے گئے ہیں؟ ان کی مالیت اور قرضے لینے والوں کے نام بھی فاضل کالم نگار بتا سکیں تو شاید معاملے کے کچھ اور پہلو بھی سامنے آئیں۔
معزز کالم نگار پارلیمنٹ کی کل کارکردگی قوم کے سامنے پیش فرما سکیں گے کہ اب تک ان اجلاسوں میں حاضری کتنی رہی کون کون سے بل پیش کیے گئے اور قانون بنے امن وامان، رہائش، روزگار، تعلیم اور طبی سہولیات، سوشل سیکورٹی جیسے بنیادی امور جو کسی بھی جمہوری، یا کم ازکم خود کو جمہوری اور عوام کی منتخب حکومت کہلوانے والی حکومت کے بنیادی فرائض ہیں، عوام کو یہ حقوق کہاں تک حاصل ہوئے یا ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ 30 کھرب سے زائد سالانہ حکومت کو بھرنے والی قوم کو اس کے بدلے میں کیا ملا ہے؟ لوڈشیڈنگ سے ملک وقوم کا کتنا نقصان ہوا ہے؟ صرف پنجاب میں 30 ہزار کارخانوں کی بندش اور لاکھوں محنت کشوں کے بے روزگار ہوجانے اور ان کے وابستگان کی روزی سے محرومی کی اطلاع ہے۔ اس کے لےے حکمرانوں نے اب تک سابق آئی جی سندھ رانا مقبول کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑنے کے علاوہ کچھ اور بھی کیا ہے؟یہ سطریں اس وقت لکھی جارہی ہیں جب 72گھنٹوں میں چوتھے ڈرون حملے کی اطلاع عین یوم دفاع پاکستان کے مرحلے پر آچکی ہے اور ایک دن میں 27 میزائل حملوں کا ریکارڈ بھی موجودہ حکومت کے دور میں قائم ہوچکا ہے، اس پر حکومت کو جو سکتہ لاحق ہے وہ بھی بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بھارت صرف دریائے سندھ ہی پر 280 ڈیم بنا رہا ہے۔ ہمارے ہاں ایک کالاباغ ڈیم پر جھگڑا ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ دیامر اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کی کہانیاں سن سن کر قوم کے کان پک گئے ہیں۔ ہوتا ہواتا کچھ نظر نہیں آرہا۔یہ قومی منظر نامے کی محض چند جھلکیاں ہیں ورنہ صرف پولیس اور وڈیروں کے مظالم ہی پر ایک ایک کتاب بن سکتی ہے جو آج پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی اس طرح جاری ہیں جیسے پچھلی حکومتوں میں۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں پاکستان میں کیا کچھ بدلا اور قوم کو کیا کیا ملا؟یہ بھی فاضل کالم نگار ہی قوم کو بہتر بتاسکتے ہیں۔