چیف جسٹس صاحب ایک اور ازخود نوٹس
چیف جسٹس صاحب ایک اور ازخود نوٹس
ننگ دھڑنگ عوام کا خون چوسنے کا ایک اور مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔چینی اب 120روپے کلو اور پٹرول فی لیٹر تقریباً سات روپے کے حساب سے یک دم مہنگا کر دیا گیا ہے۔ہمارے ملک میں اس سے پہلے جو کچھ باقی تھا آمریت نے اس کا بیٹرہ غرق کر دیا۔عوام اور ملک آج تباہی کے جس دہانے پر کھڑا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری براہِ راست حکومت پر عائید ہوتی ہے۔لوگ گھر میں گوشت تو درکنار آلو پیاز تک جیسی اشیاءخرید کر لے جانے سے قاصر ہیں۔ملک میں اتنے سخت حالات ہیں،لوگ اتنے پریشان ہیں،اتنی اور تلخیاں ہیں کہ ایک مٹھاس کے لئے چینی ہی باقی تھی وہ بھی اس حکومت نے 120روپے فی کلو پر بھیج دی ہے تاکہ کوئی غریب اپنی چائے کو بھی میٹھا کر کے نہ پی سکے۔
ٍ پٹرول جس سے غریب مگر آسان قسطوں پر موٹر سائیکل خریدنے والی عوام کے موٹر سائیکل رواں دواں تھے ان کو حکومت نے روکنے کے لئے پٹرول فی کلو سات روپے تک مہنگا کرکے گویا امریکہ سے بڑا ڈرون حملہ کیا ہے۔یہ پٹرول بم نہ جانے کتنے لوگوں کی جان لے گا۔ایک محتاط اندازے کیمطابق حکومت کو پٹرول فی کلو تقریباً چالیس سے پیتالیس روپے فی لیٹر پڑتا ہے ۔اگر حکومت ا س کو عوام تک اتنا مہنگا کر کے بیچے تو نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ عوام کے گلے پر چھری پھیرنے کے برابر ہے۔
عوام کی اکثریت اس وقت حزب اختلاف کی خاموشی پر بہت حیران ہے۔فرینڈلی اپوزیشن کہلانا بھی دراصل اچھی اپوزیشن کے لئے کسی گالی سے کم نہیں ہوتا ۔عوام پر مہنگائی کا جن روز بروز اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے اس کو اگر اس وقت بھی اپوزیشن لگام نہیں دے گی تو نہ جانے پھرکب یہ اپوزیشن عوام کے کام آئے گی۔حکومت کی عوام کیساتھ نوسر بازیوں میں آئے روز اضافہ دراصل حکومت کے فیل ہوجانے کی تصدیق ہے اس پر بھی حکومت نہ تو حکومت چھوڑنے پر تیا رہے اور نہ ہی عوام اوراپنے حالات درست کرنے کا کوئی اشارہ دے رہی ہے۔میاں نواز شریف اگر میثاق جمہوریت پر عمل درآمد ہونے یا نہ ہونے کا ڈھندروہ پیٹنے کی بجائے عوام کے لئے ابھی اٹھ کھڑے نہ ہوجاتے توپھر شایدعوام ان کو بے شمار دعائیں بھی دیتی لیکن ان کی خاموشی کو دیکھ کر شاید بعد میںعوام ان کو ”تھینک یو ویری مچ “ ہی نہ کہ دیں کیوں کہ اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ جب عوام کو روایتی طور پر کسی مسیحا کی تلاش ہے جو کہ نہ صرف مہنگائی کو کنٹرول کرے بلکہ ملک میں معاشی بدحالیوں کو بھی ختم کرے۔اسی مسیحا کی تلاش میں عوام نے آمریت کے اختتام کے لئے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا ساتھ دیا۔لیکن اس پر بھی جناب صدر صاحب نے اپنے ہر عمل کو استثنا سمجھ کر اور ثابت کر کے عوام کو خوب رگڑا دیا۔ ایک طرف سابقہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی صاحب ہیں تو انہیں ہر جلسے میں ”پرویز کاریاں ” اور اپنی ہوشیاریان بتانےکی مہلت کبھی نہ کبھی مل ہی جاتی ہے۔یہ بات ہر بندے کی سمجھ سے باہر ہے کہ ہماری موجودہ حکومت ملکی و غیر ملکی کثیر امداد ملنے کے باوجود عوام اور متاثرین کو کوئی خاطر خواہ ریلیف دینے میں نہ جانے کیوں ناکام ہو رہی ہے۔
جناب چیف جسٹس صاحب!آپ سے گزارش ہے کہ اگر حکومت اپنے ظلم کا تندور گرم کئے ہوئے ہے اوراپوزیشن ان کٹھن حالات میں چپ رہنے کی قسم نبھا رہی ہے۔حکومت اور اپوزیشن آج تک کوئی ایسا پلیٹ فارم یا کمیشن نہیں بنا سکے جس پر پہلے مہنگائی کے لئے کوئی بحث ہو یا کوئی صلاح و مشورہ ہواس کے بعد کوئی بھی شے مہنگی ہو تو پھرآپ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو ملک و عوام کی جان بچانے میدان میں آجا ئیں اور ملک میں ہر چیز پر بے جا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی ایسا شفاف کمیشن قائم کریں اور اس چیز کو باور کرائیں کہ ہر حکومت کے ساتھ یہ غیر جانبدار کمیشن ایک سوئی سے لیکر کسی بڑی آئٹم کی قیمت بڑھنے کے پروسیس کو فلٹر کرے۔یہ کمیشن کسی بھی چیز کی قیمت بڑھنے کی تمام تر وجوہات عوام کے سامنے لائے اور ذخیرہ اندوزوں، سمگلنگ کرنے والوں کو سر عام پھانسی دے۔اگر کوئی شے کم ہو جائے تو اس کو بروقت ملک سستے نرخوں پر خریدنے میں معاونت کرے۔
جناب من!یہ لوگ جب عوام سے ووٹ لینے آتے ہیں تو ان کے گھر کے گھڑوں میں اپنے کندھے پر مٹکے اٹھا کر پانی تک بھرنے کو تیار ہوتے ہیں اور جب یہ لوگ کرسی اقتدار کے نشے میں دھت ہوتے ہیں تو ان کو اپنی صفوں میں موجود کرپشن اور رشوت جیسی برائیاں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کا یہ پاکستان خدانخواستہ ہاتھ میں کشکول لیکر غیروں سے بھیک مانگنے اور ان کے آگے سرنگوں ہونے کے لئے بنا تھا بالکل نہیں؟ہم ساٹھ سال سے ملک کو بہتری سے ابتری کی طرف لیکر جا رہے ہیں۔ہو سکتا ہے آپ کے کیشن بنائے جانے سے غریب لوگوں کے چولہوں پر پھر سے سبزی ہانڈی پکنے لگے۔امید ہے آپ کی نگاہِ کرم پہلے چینی و پٹرول کے لئے ہو گی اور پھر باقی تمام اشیائے صرف کے لئے۔شکریہ