دینی غیرت کا مسئلہ
دینی غیرت کا مسئلہ
دنیاداری کے مفادات اورسرکاری مجبوریاں مسلم حکمرانوں کومصالحتی چادراوڑھنے پر مجبورکرسکتی ہیںمگرایک عام مسلمان اس درجہ مجبورنہیںکہ وہ قرآن کریم کی بے حرمتی پرخاموشی سے انگلیاں چٹخاتا رہے۔یہ دینی غیرت کامسئلہ ہے اوراس کے تقاضے سیاسی مصلحتوں سے بہت مختلف ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ امریکی چینل سی این این نے (CNN)نے ۱۳جولائی۰۱۰۲ئ(0450GMT)کی نشریات میں آئندہ گیارہ ستمبر ۰۱۰۲ءکوفلوریڈا امریکا کے ایک چرچ (Nondenominational church in Gainesville, Florida) میں معاذاللہ قرآن کریم کو جلانے کی ایک روح فرسا خبر نشرکرتے ہوئے اس ناپاک تحریک کے بانی (Pastor Terry Jones)پاسٹرو ٹیری جونزکا انٹرویو دکھایاجس میں وہ اپنے اس عمل پر بڑافخر کرتے ہوئے امریکا بھر کے عیسائیوں کو اس کام کی نہ صرف دعوت دے رہا تھا بلکہ اسلام کے خلاف کافی ہذیان بھی بک رہا تھا۔اپنے اس کام کی تشہیر کیلئے اس نے ”یوٹیوب“اور”فیس بک“کو استعمال کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔قارئین کی سہولت کیلئے لنک ارسال خدمت ہے تاکہ اس ملعون کے خیالات کو براہ راست سن کر اندازہ لگائیں کہ امریکا میں یہ ادارہ امت مسلمہ کے بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے۔
http://edition.cnn.com/2010/US/07/29/florida.burn.quran.day/index.html#fbid=62ZpapsAQ1C&wom=false
قارئین !امریکا اور یورپ میں اسلامی شعائر کا مذاق اور توہین کرنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سب سے پہلے گوانتا موبے کے عقوبت خانے میں امریکی فوجیوں نے مجبور ومقہور مسلمان قیدیوں کے سامنے قرآنِ کریم کی بے حرمتی کا آغاز کیا تھا جس کے بعد یہ سلسلہ دراز تر ہوتا جارہا ہے۔کبھی ڈنمارک کا ایک اخبار کارٹون جیسی ہرزہ سرائی کرتا ہے تو کبھی یورپ میں مسلمان خواتین کے حجاب پر قانونی پابندیوں کے بل منظور کئے جا رہے ہیں۔کبھی کویت میں قرآن میں تحریف کرکے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں تو کبھی چند گمراہ خواتین کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمان عورت کی معیت میں نماز جمعہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
امریکا اور یورپ کی اسلام کے خلاف اور مسلم کشی پر مبنی پالیسیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔امریکی صدرباراک اوبامہ میں اگر تھوڑی سی اخلاقی رمق موجود ہوتی اور وہ واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہوتے تو وہ بذاتِ خود اس واقعے کی نہ صرف مذمت کرتے بلکہ اس کی بیخ کنی کیلئے کوئی عمل قدم اٹھاتے ہوئے دکھی دل مسلمانوں سے معافی مانگتے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسا آہنی ہاتھ کام کررہا ہے جو بالآخر امریکا اورمسلمانوں کے درمیان اختلافات اوردشمنی کوگہرا کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے۔اس وقت دنیابھر میں امریکا کے خلاف فضاءہموارہورہی ہے جسے علمی سیاسی اورسفارتی سطح پربرقراررکھنامسلمانوں کےلئے پہلے سے زیادہ آسان ہے۔یہی موقع ہے جب مسلم حکمرانوں کواپناتاریخی کردار اداکرناہے۔
قرآنِ کریم کی اس بے حرمتی کے اعلان پراب تک ”اوآئی سی“کا ہنگامی اجلاس منعقدہوناچاہئے تھالیکن اس حساس اورنازک معاملے پرعالمِ اسلام کے سب سے بڑے ادارے کی خاموشی،جومسلم دنیا کے دلوں کی اصولی ترجمانی کرسکتا ہے،افسوس ناک ہے۔ اگر مسلمان حکمرانوں کے دلوں میں ایمانی حرارت ابھی تک باقی ہے توانہیں ہرمصلحت اورمفادات بالائے طاق رکھ کر متحداورمنظم ہوکرطاغوت کے سامنے سینہ سپرہونا ہوگا۔یہ ایمانی حرارت ہی تو تھی جس کے سہارے عرصہ دراز تک دنیاپرامت مسلمہ کاراج رہا،اس حرارت کی شعلہ زن تپش کے آگے قیصروکسریٰ کی فولادی چھاونیاںریت کی دیورثابت ہوئیں۔ہر باطل و متکبر قو ت خس وخاشاک کی طرح بہہ گئی ،ہرسواسلام کی حقانیت وصداقت کاعلم بلندہوا،اورامن و آشتی کی فضاءہموارہوئی۔وقت آگیا ہے کہ مسلمان حکمران ثابت کردکھائیں کہ سپرطاقت صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔
برطانوی سامراج ہویا سرخ ریچھ کا پنجہ استبداد،افغان عوام نے ہمیشہ حملہ آوربیرونی قوتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں پہل کی اوروقت آنے پراللہ اوراس کے رسول ﷺسے محبت کاحق ادا کردیا۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے شمالی صوبے بدخشاں کے مرکزفیض آبادمیں تین سوسے زائدعلماءنے جمع ہوکرایک دفعہ پھر امریکا کوالٹی میٹم دیا ہے کہ امریکا میں گراب کوئی قرن کی بے حرمتی کا واقعہ ہوا تو افغان جہاد میں ایسی تیزی پیدا کی جائے گی کہ جس کے بعد امریکا کا مصالحت کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہ ہوسکے گا۔ افغان عوام کی امریکا کے خلاف مزاحمت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی ایمانی حرارت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور سرد ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔وہ نہ توکارپٹ بمباری سے خوفزدہ ہوئے اورنہ ہی کلسٹر بموں کی ہلاکت خیزی ان کے عزم کو کم کرسکی۔آج بھی غیور افغان گولیوں کی تڑتڑاہٹ اوربموں کی گھن گرج میں سوا ارب مسلمانوں کے دلوں پر دستک دے رہے ہیں‘انہیں جگا رہے ہیں ‘انہیں بتا رہے ہیں کہ امریکا کی جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔
امریکی سی آئی اے میں بائیس برس گزارنے اورانسداد دہشت گردی مرکزکی نگرانی میں کام کرنے والے ”بن لادن یونٹ“کے سربراہ(Michael Scheuer)
مائیکل شیورنے ایک مرتبہ پھر واشنگٹن میں ایک سیمینار کے دوران کھل کریہ بات کہی ہے کہ ”عراق کی ابو غریب جیل میں امریکی فوج نے”سامراجی گھمنڈ“کامظاہرہ کیا،اس نے اسامہ بن لادن کونئی طاقت بخشی ہے،امریکی فوجیوں کے طرزِ عمل کے بعد کروڑوں مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ امریکا کی جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے یا مسلمانوں کے خلاف؟“
مائیکل شیورنے اپنی کتاب(Imperial Hubris: Why the West Is Losing the War on Terror)”امپیریل ہبرس“میں مغرب اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کی بڑی وجہ امریکی اربابِ اختیار کے ”سامراجی گھمنڈ“کوقراردیاہے اورواضح طورپرکہا ہے کہ ”جب تک فلسطین،کشمیر، چیچنیا،عراق اور افغانستان کے مسلمانوں کو انصاف نہیں ملتا،مغرب اسامہ بن لادن سے کبھی بھی نہیں جیت سکتا“۔”۱۱ستمبر کے سانحے میں القاعدہ کا ہاتھ تلاش کرکے اصل میں نشانہ اسلام اورمسلمانوں کوبنایا گیا ہے“۔امریکا اپنے اس منصوبے پرپوری طرح کامیابی سے عمل پیرا ہے اوریہودوہنود کی بھی پوری کوشش ہے کہ امریکا اور یورپ کواس جنگ کی دلدل سے باہر نہ نکلنے دیا جائے جب تک وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوجاتے۔
ادھرایک مسلمان تنظیم(The Islamic advocacy group Council on American-Islamic Relations)نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ماہِ رمضان میں امریکا کے ذی ہوش شہریوں اور سیاسی جماعتوں کے ارکان میں ایک لاکھ قرآنِ کریم کی کاپیاں تقسیم کی جائیں گی اور غیرمسلموں کو قرآن کریم کے مطالعے کی دعوت دی جائے گی تاکہ وہ خود فیصلہ کریں کہ قرآنی تعلیمات ہی انسانیت کی فلاح کی ضامن ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ مسلم حکمران ہوش کے ناخن لیں ۔وفا کے جس جذبے کا اظہار عراقی‘کشمیری اور افغانی کررہے ہیں ،اگر پاکستان سے لیکر مراکش تک یہی جذبہ نظر آئے تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے علاوہ یہودوہنود کی نیندیں بھی حرام ہوسکتی ہیں۔بس ایک جذبہ جنوں درکار ہے جس کا اظہارآج کابیکس کشمیری ظاہرکررہا ہے!
اے نوید مسیحا تری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوںسے ابتر ہوا اس کے کمزور اوربے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی
روح و یران ہے آنکھ حیران ہے ایک بحران تھا ایک بحران ہے گلشنوں شہروں قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گھمبیر افسردگی یا نبی