URDUSKY || NETWORK

جنوں کی حکایت اور عیاش چینی

107

جنوں کی حکایت اور عیاش چینی

ایک خاوند ایوب خان دور کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر کی کتاب ” لکھتے رہے جنوں کی حکایت“ پڑھ رہا تھا تو اس کی اہلیہ کی نظر کتاب کے سرورق پر پڑ گئی فوراًبول اٹھی” میں بھی کہوں کہ آ پ آج کل جنوں کی باتیں کیوںکرتے رہتے ہیں “…… خیر بھلا ہو اس خاوند کا کہ اس نے یہ نہیں کہہ دیاکہ بیگم تمھارے ہوتے ہوئے مجھے جنوں کی کتابیںپڑھنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ ……مجھے یہ تجرباتی لطیفہ یہاں تجربہ کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہماری عوام بھی اتنی سادہ ہے جتنی ہماری بیگمات ( ویسے آپس کی بات ہے بیگمات ویگمات اتنی سادہ بھی نہیں ہوتی ہیں) تو بات ہو رہی تھی عوامی سادگی کی کہ 5 روپے پیٹرول کیا مہنگا ہوا ہر چیز مہنگی ہو گئی اور تو اور بھینس اور گائے کے دودھ کی قیمت میںبھی اضافہ ہو گیا ، بندہ پوچھے کیا ہماری یہ سادہ مخلوق جسے اللہ میاں کی گائے کہتے ہیںہائی آکٹین استعمال کرتی ہیں ۔گوالہ کالونی اور گوال منڈی والوں کو اس بارے میں کچھ سوچنا چاہیے و یسے ہمارے ان شیروں کے پاس سوچنے والا خانہ ہوتا تو وہ کیوں صبح و شام حیوانی تھنوں سے شیر نکالتے رہتے آخر دنیا میں دودھ نکالنے اور دودھ پلانے کے بھی اور کام ہیں اب بھلا چینی کا پیٹرول سے کیاتعلق کہ وہ بھی مہنگی ہو گئی ، اور چینی فوبیا کی شکارحکومت کے وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کے بعد وزیر خوراک جناب نذر محمد گوند ل صاحب کا بھی شکریہ کہ انہوں نے بھی چینی کے عیاشی ہونے کا فتویٰ جاری کر دیاایسے نابغہ روزگار وزراءکے ہوتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم صاحب آ خر دوسروں سے پیچھے کیوں رہیں جناب ،انہوں نے تو پرائم منسٹر ہاوس میں چینی کے استعمال پر ہی پابندی لگا دی سبحان اللہ ….. نعرہ تکبیر…… یہ سبھی ان حکمرانوں ہی کی برکات ہیںکہ ہمیں قرونٰ اولی ےااصلی حکمرانوںکی اہمیت اور ان کے کارنامے یاد آ جاتے ہیںورنہ موجودہ حکمرانوں نے تو عوام کا قیمہ نکالنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا ہے ۔ خیر جناب ہم حکمرانوں او ر خاص کر اپوزیشن والوں کو سلام پیش کرتے ہیںکہ انہوں نے ہماری خاطرقومی اسمبلی اور سینٹ میںآواز بلند کی واک آوٹ کیاورنہ تواس پرفتن دور میں توسایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ہمارے سیاہ ست دان ہمارے ساتھ کھڑے رہے ،بس جی اب ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے ا ب ہم مزید مہنگائی کی لہر آنے پر ان کی انشاءاللہ ڈرامہ بازی دیکھیں گے ویسے انہیں کیا پتہ کہ دال کیا ہوتی ہے کتنے میں کہاں سے ملتی ہے ،آٹا، چاول اور پٹرول کے کیا نرخ جا رہے ہیںانہیں تو یہ سب کچھ بن مانگے ہی مل جاتے ہیںاور عوام مانگ مانگ کر مر جاتی ہے پھر بھی اسے کچھ نہیں ملتایہ بیچارے تو پاکستان میںرہ کر ہی دوزخ کے مزے چکھ چکے ہیں اور2 2پرسنٹ والوں کے لئے پاکستان جنت ہے بس نانصافی یہ ہو گئی ہے کہ پاکستان کی جنت میں امیروں اور غریبوں کے تناسب میں بہت فرق ہے بہرحال امید پر دنیا قائم ہے ہم بھی توقع رکھتے ہیں کہ آخرت میںیہ شرح خوش حالی اورخشک سالی الٹ ہو جائے گی۔ باقی نام رہے اللہ کا۔