URDUSKY || NETWORK

اب فیصلہ آپ کوکرناہے

89

پاکستانی وفاقی کابینہ کے ایک اہم وزیراورپاکستان کی ایک انتہائی اہم شخصیت کابیٹااس وقت نیشنل انشورنس کارپوریشن میں اربوں روپے کی کرپشن کے بڑے ملزم ایازخان نیازی کوبچانے کےلئے سینہ سپر میدان میں اتر آئے ہیں جس کے شواہد اورثبوت اس سے پہلے انہی کالموں میں تحریر کئے جاچکے ہیں اوراس ملزم سے ابھی تک وفاقی انٹیلی ایجنسی یعنی ایف آئی اے کی رسائی ناممکن بنادی گئی ہے۔اس سے ابھی تک نہ توابتدائی پوچھ گچھ ہوسکی ہے اورنہ ہی کوئی ایک سوال کاجواب مل سکا ہے۔ دبئی کے ایک نائٹ کلب کایہ سابقہ مینجر ایاز خان نیازی جس کوچن کرپاکستان بلایا گیااوراس کو نیشنل انشورنس کارپوریشن کا سربراہ مقررکردیا گیاتھا‘اس نے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران زمینوں کے ایسے سودے کئے جس نے نیشنل کارپوریشن کے خزانے میں پڑے اربوں روپے خالی کردیئے۔دوبڑے سودے لاہور میں ہوئے جہاں کوڑیوں کے مول کی اراضی کواربوں روپے میں خریداگیا‘ایک بڑاسودہ کراچی میں ہواجہاں کورنگی کاایک پلاٹ جوانتہائی ارزاں قیمت پربھی کوئی خریدنے کوتیارنہیں تھااس کوآسمان سے چھوتی ہوئی قیمت میں خرید لیا گیا۔
دبئی میں جب رئیل اسٹیٹ زمیں بوس ہورہی تھی وہاں آفس ٹاور میں زمین۰۵۱/۱درہم اسکوائرفٹ فروخت ہورہی تھی جبکہ کارپوریشن نے اس کی قیمت۰۵۳۳درہم اسکوائرفٹ اداکی گئی جوموجودہ قیمت سے کئی گنازیادہ تھی اورآج اس کی قیمت میںچھ گناکمی ہوچکی ہے ،اس سے جہاںمتعلقہ ادارے کواربوں روپے کاخسارہ اٹھاناپڑاوہاں کچھ افراد کی جیبوں میں قومی دولت کے اربوں روپے منتقل کردیئے گئے۔جس طرح اوردوسرے بدعنوانی کے مقدمات زیرسماعت ہیں اسی طرح اعلیٰ عدلیہ نے براہ راست اس معاملے کی تحقیق کےلئے ایف آئی اے کو حکم دیالیکن اس معاملے کی تحقیقات جس سست روی سے ہورہی ہیں اس سے یہ اندیشہ بڑھتاجارہا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی کرپشن کے تمام ثبوت ختم یاتلف کرکے اس معاملے کوبھی بالآخر داخل دفتر کردیا جائے گااورقوم ہمیشہ کی طرح ان بدعنوان عناصر کاکچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کےلئے ایک ایماندار اہلکارڈپٹی ڈائریکٹرظفرقریشی نے جونہی اس بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیق کے سلسلے میں ایاز خان نیازی کا۴نومبر۰۱۰۲ءکووارنٹ گرفتاری حاصل کیا تواس کافوری تبادلہ کردیا گیا۔اہم بات یہ ہے کہ ایک وفاقی وزیرنے ایازخان نیازی کواپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اورایف آئی اے کی دسترس کوناممکن بنادیا گیا ہے۔اس مقدمے میں بااثرلوگوں کی دلچسپی کااندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ملزم ایاز کوکیوں بچاناچاہتے ہیں۔
یادرہے کہ ۲۱۱کتوبر کوسپریم کورٹ نے اپنے تحریری بیان میں یہ حکم دیاتھاکہ ”سیکرٹری تجارت نے اعتراف کیا ہے کہ مذکورہ معاہدوں میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں سیکرٹری تجارت کوہدائت دی جاتی ہے کہ فوری طورپرایف آئی اے میں ان معاہدوں کے حوالے سے چیئرمین ایازخان نیازی اوردیگرافرادکے خلاف فوجداری رپورٹ درج کرائیں۔ڈائریکٹرجنرل /ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے کوہدائت کی جاتی ہے کہ قومی فنڈ میں خردبرداوربدعنوانی میں ملوث تمام افرادکے خلاف قانون کے مطابق مقدمات درج کئے جائیںڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے ‘نیب کوتفتیشی عمل کے بارے میں مکمل آگاہ رکھیںگے ایف آئی اے اورنیب حتمی طورپرملزمان کے خلاف کاروائی کے امورطے کریں“۔اب تازہ ترین جواطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے گزشتہ پیشی میںعدالت عالیہ کومطلع کیا تھا کہ اس مقدمے کا سارا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا ہے اورتمام اکاونٹس منجمد کردیئے گئے ہیں لیکن انتہائی مصدقہ ذرائع سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ عدالت عالیہ کویہ بیان دینے کے باوجودمقدمے کے ایک اورملزم حبیب اللہ وڑائچ نے اسی اکاونٹ سے لاہور کے ایک بین الاقومی بینک سے پچاس کروڑ روپے نکلوالئے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ظفرقریشی نے نیشنل انشورنش کے بورڈ کے کچھ دیگرممبران سیدحرگردیزی ‘سیدنوید حسین زیدی ‘عجاز شیخ ‘ایوب صدیق بٹ ‘ ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز‘سیدزاہدحسین جنرل مینجررئیل اسٹیٹ‘سیداطہر نقوی جنرل مینجرآڈٹ‘اعجاز شیخ جنرل مینجرلائ‘محمد ظہورایگزیکٹوڈائریکٹر فنانس کوبھی گرفتارکیا لیکن انہیں مجبورکیاگیاکہ ان افرادکاریمانڈ دویاتین دن سے زائد نہ لیا جائے۔اس بدعنوانی کے ثبوت جوبکھرے پڑے ہیں ان تمام افراد کے عدم تعاون اورباثرلوگوںکے دباو کی بناءپراکٹھے کرنے میں سخت دشوری پیش آرہی ہے۔اس سکینڈل کے سب سے بڑے ملزم سے ابھی تک ایک سوال بھی پوچھنے کی اجازت نہیں مل رہی کیونکہ وہ انہی بااثر لوگوں کی پناہ میں ہے۔یہ بات بہت اہم ہے کہ نیشنل انشورنس کارپوریشن وزارتِ تجارت کے تحت کام کرتی ہے جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم ہیں۔اس سکینڈل کے علاوہ دیگربدعنوانی کے شاہکار بھی اسی وزارتِ تجارت کے ساتھ موسوم کئے جارہے ہیں لیکن ابھی تک وزیرموصوف نے کسی ردعمل کااظہار نہیںکیا ہے ۔اب ان معاملات کی تحقیق کےلئے خاصادباوبڑھ رہا ہے لیکن حکومتی اثرورسوخ کی بناءپر کئی ثبوت ضائع کردیئے گئے ہیں۔ امین فہیم ان کرپشن کے معاملات پراب تک میڈیاکی طرف سے ٹھوس شواہدمہیاکرنے کے باوجودکسی بھی کاروائی سے گریزکررہے ہیں‘آخرکیوں؟
٭امین فہیم جن کاایک سیاسی مقام تھااب پچھلے دنوں سے خودکئی الزامات کی زدمیں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ان کے بارے میں یہ خبر بھی آئی ہے کہ انہوں نے آخری بار مئی ۹۰۰۲ءمیں بجلی کاآخری بل اداکیا تھااورجون ۰۱۰۲ءتک ان پرکے ای ایس ای کے ۶لاکھ ۲۱ہزارکابل ابھی تک واجب الاداہے۔
٭نومبر۹۰۰۲ءمیں مخدوم امین کی صاحبزادی ملیحہ مخدوم کوآئرلینڈمیں براہِ راست فرسٹ سیکرٹری تعینات کیاگیا‘سول سروس کے مقابلے کے امتحان میں کامیابی اوراٹھارہ ماہ کی تربیت ضروری ہوتی ہے لیکن ملیحہ مخدوم کودونوں شرائظ کے بغیر ہی خارجہ سروس میں شامل کردیا گیا۔
٭ نومبر۸۰۰۲ءمیںجن ۸۲سیاسی چہیتوں کووزیراعلیٰ سندھ نے ضروری امتحان سے مستثنیٰ قراردےااورترقی دے دی ،ان میں مخدوم امین فہیم کے دوصاحبزادے مخدوم شکیل الزماں اورمخدوم عقیل الزماں شامل تھے ۔
٭اس کے علاوہ فروری ۰۱۰۲ءکویہ بات سامنے آئی تھی کہ وزارت تجارت نے ایک انتہائی غیرمعمولی طریقے سے مخدوم امین فہیم کی باقاعدہ منظوری کے بعد ملتان سے تعلق رکھنے والی آئیڈیل ٹریڈنگ کمپنی کوایک کروڑٹن استعمال شدہ فرنس اورلیوب آئل درآمدکرنے کی ”خصوصی“اجازت دی،جس کامطلب یہ کہ اگروہ منظورنظر شخص یہ تمام مطلوبہ سامان درآمدکرلیتاتواسے راتوں رات اربوں ڈالرکانفع حاصل ہوجاتا۔ میڈیامیںاس سکینڈل کے افشاءہوجانے کے بعداس خصوصی منظوری کومنسوخ کرناپڑالیکن اس بدعنوانی کی آج تک تحقیق نہیں ہوسکی۔
٭اگست ۹۰۰۲ءمیںاپنے منظورِ نظر شخص کوٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان کاچیئرمیں مقررکیاگیا جس نے اجناس کی درآمداوران کی مہنگے داموں شپنگ کےلئے خفیہ سودوں کے ذریعے غیرشفاف طریقہ کاراپنایاجبکہ درآمدات کاوقت ایسا رکھا گیاتاکہ مقامی منڈیوں سے بھی زیادہ سے زیادہ نفع کمایاجاسکے ۔
٭بندرگاہوں پر کارگوہینڈلنگ کے نئے ٹھیکے پچھلے نرخوں سے تین گنازیادہ قیمت پر دیئے گئے‘یوریاکی غیرشفاف درآمد کے ذریعے قومی خزانے کوبیس ارب روپے کانقصان پہنچایا گیا ۔
٭گوادرپورٹ پر گندم کی درآمدکےلئے کارگوہینڈلنگ کے ٹھیکے مارکیٹ میں رائج قیمت سے ۵گنازیادہ دیئے گئے۔
٭چینی کی درآمدپراقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کوسوچی سمجھی سازش کے تحت یکسرنظراندازکیاگیاجس کی بناءپرشوگرمافیانے غریب عوام کی جیبوں سے اربوں روپے کاصفایاکردیا ۔
٭دوسری طرف نیشنل انشورنس کارپوریشن کو کراچی اسٹاک ایکسچینج میںپانچ ارب روپے کاخسارہ اٹھاناپڑا،آج تک اس معاملے کی کوئی تحقیق نہیں ہوسکی کہ آخر اس بدعنوانی کی بہتی گنگامیں کن افرادنے غوطے لگائے ہیں!
نیشنل انشورنس کارپوریشن کیونکہ براہ راست وزیرتجارت کے ماتحت کام کرتی ہے لیکن اس سکینڈل کے بارے میں مخدوم امین فہیم نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اورمیڈیاباربارچیخ چیخ کراپنے اس الزام کودہرارہا ہے کہ اس سکینڈل کے مرکزی ملزم ایازنیازی ایک وفاقی وزیر اورایک اہم شخصیت کے صاحبزادے کی تحویل میں پناہ لئے ہوئے ہے اوران کی تصاویرانٹرنیٹ بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔پاکستانی تحقیقاتی اداروں کوبھی بخوبی علم ہے کہ ملزم اس وقت کن بااثرلوگوں کی تحویل میں ہے۔
دوسری طرف ایشیائی ترقیاتی بینک سے دوارب ڈالرکاقرضہ منظورہوگیا ہے اوراب سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعدتعمیرنوکے نام پر اس کی لوٹ کھسوٹ کے منصوبے بھی تیارکرلئے گئے ہےں۔دیکھناتو یہ ہے کہ اس سیلاب کی مدمیں جوعالمی امدادملک میں پہنچی ہے اوران رقوم کوکہاں کہاں استعمال کیاگیا اس کی تمام تفصیلات سے قوم کومطلع کیاجاتالیکن اس کی پرواہ کئے بغیرملک کوایک بارپھر قرضوںکی دلدل میں ڈبویاجارہا ہے۔ معاشی ماہرین کی رائے میں پچھلے ۵۲سالوں میں اتنے قرضے نہیں لئے گئے جتنے اس حکومت نے پچھلے ڈھائی سالوں میںقوم کی کمرپرلاد دئے ہیں۔اس وقت ہرپاکستانی پہلے ہی پچاس ہزارکامقروض ہے اورپانچ کروڑ سے زائد پاکستانی رات کوبھوکے سوتے ہیں۔سندھ میں تعمیرنوکے نام پر ان نہروں کی ازسرنوتعمیرکامرحلہ شروع کیاگیاہے جس کوحالیہ سیلاب نے تہہ وبالا کردیا تھا۔اس کےلئے حکومت سندھ نے ۲۷کروڑ روپے کے مختلف منصوبوں کاآغازکیاہے لیکن بدنصیبی سے ان کی ابتداءہی بدعنوانی وکرپشن سے ہوئی ہے۔
من پسند ٹھیکیداروںکو انتہائی غیرشفاف طریقوں سے نوازنے کاکام جاری ہے ۔محکمہ آبپاشی سندھ نے ان کاموں کےلئے چنداخبارات میں ٹینڈروصول کرنے کےلئے اشتہارشائع کروائے جس میں ٹینڈرداخل کروانے کی تاریخ۴نومبراورکھولنے کی تاریخ ۵نومبرمقررکی گئی لیکن بعدازاںاپنے من پسند ٹھیکیداروںکوشامل کرنے کےلئے اس کی تاریخ بڑھاکر۸نومبرکردی گئی۔میڈیامیں یہ خبرگشت کرہی ہے کہ اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ ٹینڈران کمپنیوں کے حوالے کئے گئے ہیں جو ۲۱٪سے لیکر ۵۱٪کمیشن اداکرنے کےلئے رضامندہوئے ہیں۔ یہ کمیشن مقامی وزراءمیں تقسیم ہوگا۔پھران ٹینڈرزکی تحریری وصولی کےلئے ۵٪کمیشن مزیداداکرناپڑے گاجوچیف انجینئر اورسپرنٹنڈنٹ انجینئرزاورایکسئن میں تقسیم ہوگااورپھر ہر بل کی ادائیگی کے وقت دس سے پندرہ فیصد الگ سے کمیشن اداکرناپڑے گا۔اس طرح ٹھیکے کی کل مالیت کا۰۴٪سے لیکر۵۴٪کمیشن کی نظرہوجائے گا اوراس طرح بقیہ ساٹھ فیصد سے لیکر۵۵٪میں ٹھیکیدار کواس کام کی تکمیل میں صرف کرناہوگاجس میں یقینا وہ اپنانفع بھی کمائے گا۔اس طرح کل ۲۳ٹینڈر۱۷کروڑ۱۶لاکھ روپے کے ٹینڈر جاری کردیئے گئے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام ٹینڈرکے اشتہارات علاقے کے معمولی اخبارات کوجاری کئے گئے جبکہ محکمہ آبپاشی کی سرکاری ویب سائٹ پران کی اشاعت سے دانستہ گریزکیاگیا۔حکومت سندھ نے اس سلسلے میں محکمہ آبپاشی کوایک ارب روپے کے فنڈزبھی جاری کردیئے ہیں تاکہ ۵۱جنوری ۱۱۰۲ءتک ان تمام کاموں کی تکمیل کی جاسکے۔
ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جوپہلے ہی توانائی کے بحران اورگیس کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کاشدیدشکار ہے اوراس کومزید بربادکرنے کےلئے اب عالمی بینک اورآئی ایم ایف کے حکم پر جبری ریفارمڈجنرل سیلزٹیکس کے ساتھ فلڈ ٹیکس لگادیاگیا ہے۔ ملک میں بجلی ناپید ہے لیکن اس کے ہوشربابلوں میں ہرمہینے ۲٪اضافہ کرنے کاحکم جاری کردیا گیا ہے۔شوگرمافیابے لگام ہوچکاہے‘پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ملک میں مہنگائی کا جن بے قابوہوچکا ہے۔اسی حکومت کے سابقہ وزیرخزانہ شوکت ترین ملک میں ہرسال پانچ سوارب کی بدعنوانی کاانکشاف کرکے مستعفی ہوکرگھرچلے گئے لیکن یہ بدعنوانی اورکرپشن کے پہاڑنے پاکستانی عوام کوکچل کے رکھ دیا ہے اوراب پاکستانی برملااس حکومت سے جان چھڑانے کےلئے موت کی تمناکررہے ہیں ۔ قارئین!یہ خبرشائدآپ کےلئے دھچکہ سے کم نہ ہوگی کہ پہلی مرتبہ لندن میں ہونے والی عالمی ایئرلائن کی نمائش میں جہاں چھوٹے سے چھوٹے ملک نے بھی شرکت کی ہے وہاں پی آئی اے کی کوئی نمائندگی یاسٹال موجودنہیں تھا گویا اس غیرحاضری سے ایک انتہائی خطرناک پیغام ارسال کردیا گیا ہے ؟
قارئین!یہ ہے اس حکومت کی کرپشن کاایک چھوٹاساخاکہ‘اب فیصلہ آپ کوکرناہے کہ تعمیرنوکے نام پراب اورکتنی بربادیوں کاسامناکرناہے!