پتھر کے زمانے میں دانتوں کا علاج
ایک امریکی یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ ڈیوڈ فرائر نے پتھر کے زمانے کی نو کھوپڑیوں پر کی جانے والی اپنی تحقیقی رپورٹ جاری کر دی ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس زمانے میں بھی دانتوں کا باقاعدہ علاج کیا جاتا تھا۔
انسان اپنی تلاش کے سفر میں ماضی کو کھوجتا جا رہا ہے اور اِس تلاش کا ایک رُوپ آثار قدیمہ کی بازیافت بھی ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کا ماضی کتنا تابناک تھا۔ اگر مصری تہذیب سے گنجے پن کے علاج ، نعشوں کو محفوظ رکھنے اور دیگر بیماریوں کے بارے میں اُس دور کے معالجین کے علم کا اندازہ ہوتا ہے تو موہنجوڈارو سے پسندیدہ کھیل شطرنج ، نکاسی آب اور شہر کے طرزِ تعمیر سے اُس دور کے سماجی رویوں اور ترقی کا پتہ چلتا ہے۔
سب سے پرانی انسانی تہذیب کے کچھ آثار تو پاکستان میں پوٹھوہار کی وادی سواں میں بسنے والی تہذیب سے ملے تھے اور اب بولان کی وادی میں انسانی تہذیب و تمدن کے چونکا دینے والے شواہد ملے ہیں۔ پاکستان کے مغرب میں واقع ایک مقام ، مہر گڑھ سے ملنے والی انسانی کھوپڑیوں پر تحقیق کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ یہ نو ہزار سال قبل از مسیح کی ہیں ، جو پتھر کے زمانے کا آخری زریں دور قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کے پرانے آثار وادی سندھ میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔
امریکی Kansas یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ David Frayer نے پتھر کے زمانے کی 9 عدد کھوپڑیوں پر کی جانے والی اپنی تحقیقی رپورٹ جاری کر دی ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس زمانے میں بھی دانتوں کا باقاعدہ علاج کیا جاتا تھا۔ ڈیوڈ فرائر کے مطابق یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دانتوں کے علاج اور خصوصیت سے دانتوں میں سوراخ کر کے اُن کو بھرنے کے یہ پہلے نمونے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ اِس سارے علاقے میں یہ علاج پندرہ سو سال تک مروّج رہا تھا۔اِس سے پہلے دانتوں کے علاج کے حوالے سے انسانی کاوش تین ہزار سال قبل از مسیح کے ڈنمارک میں ملنے والے آثار تھے لیکن مہر گڑھ سے ملنے والے ماضی کے نشانات کا زمانہ چار ہزار قبل از مسیح سے سات ہزار قبل از مسیح کے درمیان کا ہے۔
مہر گڑھ سے ملنے والی کھوپڑیوں پر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 9 عدد مریضوں کی عمریں اندازاً بیس سے چالیس کے درمیان تھیں اور اُن میں سے چار خواتین تھیں۔ دانتوں کے اندر سوراخ غالباً سوراخ کسیے نوکیلے اَوزار سے کئے گئے تھے ، جسے تیزی سے گھمایا جا سکتا تھا۔اِن سوراخوں کا مقصد داڑھوں میں لگے کیڑے یا اندر موجود انفیکشن کی وجہ سے پیدا پیپ کو نکالنا تھا۔ سوراخ کی مدد سے مرمت کئے گئے دانتوں کی تعداد گیارہ ہے جبکہ چار ایسے ہیں جن میں غالباً مکمل شفایابی نہیں ہوئی تھی۔محققین کا خیال ہے کہ یہ دانت یقیناً کسی بہتر مواد سے بھرے گئے تھے جو وقت کی گزرگاہ پر ضائع ہوگئے ہیں۔ ابھی اُس مواد سے آگاہی ممکن نہیں ہو سکی۔ فرانس کی Poitiers یونیورسٹی کے ماہر حجریات Roberto Macchiarelliکا خیال ہے کہ اُس زمانے میں دانتوں کے حوالے سے انسانی رویے بالغ نہیں تھے اور ہر قسم کی خوراک کے اِستعمال سے اُن میں بیماریاں عام تھیں۔ ویسے بھی یہ وہ زمانہ ہے جب اِنسان نے جَو اور گندم کو بطورِ خوراک کھانا شروع کیا تھا۔
پاکستان کے صوبے بلو چستان میں دریائے بولان کی وادی میں چار ہزار سال پرانی اِس تہذیب نے ماہرین آثار قدیمہ کے لئے نئے باب کھول دئیے ہیں۔اِس مقام پر سن 1980ءمیں ایک فرانسیسی ٹیم نے 380 افراد کے ساتھ کھدائی کا کام شروع کیا تھا۔ اِس عمل میں بعد ازاں سن 2000ءمیں مزید بین الاقوامی ماہرین بھی شریک ہو گئے حالانکہ تب بلوچستان غیر ملکیوں کے لئے کوئی پُر سکون علاقہ نہیں رہا تھا۔ تحقیق سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ مریض ایک سے زیادہ مرتبہ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔ دانتوں کا علاج دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ معالجین اپنے کام کے زبردست ماہر تھے۔ فرانسیسی ماہر آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ قدیم تہذیبوں میں دانت کا علاج ایک انتہائی کمیاب شے ہے۔ مہر گڑھ میں دانتوںکے علاج کی روایت 1500 برسوں پر محیط ہونے کے باوجود اِس علاقے سے کسی دوسرے تمدن کو کیوں منتقل نہیں ہوئی ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کی کھوج جاری ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو