URDUSKY || NETWORK

قدیم دور کے جہاز را‌ں زیادہ تر زیتون کھاتے تھے

80

ہزاروں سال پرانے ایک تباہ شدہ بحری جہاز کے ڈھانچے سے ملنے والی زیتون کی بے شمار گٹھلیوں سے ماہرین کو یہ جاننے میں مدد ملی ہے کہ قدیم دور میں جہاز رانوں کی خوراک کیا ہوتی تھی؟

قبرصی ماہرین نے نکوسیا میں بتایا کہ جس بہت پرانے تباہ شدہ بحری جہاز کے ڈھانچے کا انہوں نے مطالعہ کیا، وہ کم ازکم بھی چارسو سال قبل از مسیح کے دور کا ہے۔ یوں اس جہاز کو آج سے قریب 2400 سال قبل سمندری سفر کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
سمندری علوم کے ماہرین کو چند سال قبل اس بحری جہاز کا ڈھانچہ قبرص کے جنوبی ساحل کے قریب سمندر کی تہہ سے ملا تھا اور اس پر زیادہ تر بحیرہء ایجیئن کے جزیرے Chios اور اس کے قریب ہی واقع چند دیگر شمالی جزائر پر تیار کی جانے والی وائن اور دیگر اشیائے خوراک لدی ہوئی تھیں۔
بعد ازاں ماہرین آثار قدیمہ کی طرف سے اس علاقے میں نومبر 2007 میں شروع کی جانے والی تحقیق سے ثابت یہ ہوا کہ یہ بحری جہاز دراصل ایک ایسا تجارتی بحری جہاز تھا، جو جہاز رانی کے کلاسیکی دور کے آخری حصے میں زیر استعمال رہا تھا۔
قبرص میں محکمہء آثار قدیمہ کے مطابق اس بحری جہاز اور سمندر کی تہہ میں اس کے ارد گرد کے علاقے سے ماہرین کو ایسے شواہد بھی ملے، جو یہ وضاحت بھی کر دیتے ہیں کہ قبل از مسیح کے دور میں جہاز رانوں کے لئے حالات کار کیسے ہوتے تھے اور ان کی خوراک کس طرح کی ہوتی تھی؟
نکوسیا میں محکمہء آثار قدیمہ کے مطابق: ’’ماہرین کو سمندر کی تہہ میں اس جہاز کے قریب سے زیتون کی ایسی بے شمار گٹھلیاں بھی ملیں، جو بظاہر جہاز کے عملے کی خوراک کے طور پر اس پر لدے زیتون کے بیج ہیں۔‘‘
بحیرہء روم اور بحیرہء ایجیئن کے علاقے میں زیتون اور زیتون کا تیل عام شہریوں کی روزمرہ خوراک کا لازمی حصہ ہیں۔ اس امر کے واضح دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں کہ اس خطے میں صدیوں سے زیتون اور زیتون کے تیل کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی حوالے سے اطالوی ماہرین آثار قدیمہ نے کچھ عرصہ قبل یہ پتہ بھی چلایا تھا کہ قبرص میں تیار کردہ چند ایسی خوشبویات، جو دنیا کی قدیم ترین خوشبوؤں میں شمار ہوتی ہیں، بنیادی طور پر زیتون کے تیل ہی سے تیار کی گئی تھیں۔
بشکریہ DW