صرف امریکہ نہیں
محمد یونس عالم
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو اس جہاں کی ہرتباہ کاری کے پس منظرمیں القاعدہ نظرآتی ہے۔اور ہمارا مسئلہ یہ کہ ہمیں صرف ہلاکت خیزیوں ہی نہیں عرب دنیاکے افق پرامڈتے انقلاب کے ماہ مبین پربھی واشنگٹن کا عکس نظرآتا ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ امریکہ کا دوہرا معیار اور القاعدہ کا ہیبت ناک سایہ شہرت کی اس انتہا پر کھڑاہے جہاں پہنچ کرہر جنس افسانہ بن جاتی ہے۔انسانی فطرت ہے کہ اسے فلسفیانہ موشگافیوں میں رنگ بھرنے کیلئے کچھ افسانوی کردار درکارہوتے ہیں ۔سو ہم نے امریکہ کے ساتھ بھی یہی کیا اور یہ بھول گئے کہ ارض پاک پرمسائل کی کوکھ سے جنم لیتے بحرانوں کے پس منظر میں کچھ ایسی طاقتیں ملوث ہیں جن کا جینا مرنا ہم سے وابستہ کردیا گیا ہے۔نہ جانے کیوں اکثر یوں ہوتا ہے کہ بچہ بغل میں ہوتا ہے اورہم ڈنڈھورا شہرمیں کرتے ہیں۔چراغ کو دیکھ لیجئے کہ جہاں اس کے دم سے روشن ہے مگرناک تلے پھیلی تاریکی کا کوئی سد باب نہیں کرپاتا۔
ارض پاک پر فرقہ ورانہ فسادات پرایمان رکھنے والی مقدس ہستیوں سے لے کراعتدال پسندی کے پراسرار علمبرداروں تک کوئی بھی ایسا نہیں جس کی پشت پناہی کا فریضہ ہماراکوئی پڑوسی ملک انجام نہ دے رہا ہو۔امریکی سفارتخانہ تو خیرسے ہماری لغت میں ہے ہی بدی کا محورمگردیگرسفارتخانوں کا”مخلصانہ“کردارہمارے اس دھرتی پر کیا قیامتیں ڈھا رہا ہے آیئے کہ اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔یہاں کوئی مسلک یا اس مسلک کے چند دہن بے لگام شخصیات بھی ایسی نہیں ہیں جن کے وجود سے اکناف کی کسی ریاست کا مفاد وابستہ نہ ہو۔یہاں ایک مسلک اوربالخصوص اس مسلک کے پینتس فیصدافراد کی مکمل کفالت ایران کے ذمہ ہے۔ یہ بات یقینا کوئی تعجب خیز نہیں ہوگی کہ اس مسلک کی سب سے بڑی جماعت کی مسند قیادت پر براجمان شخصیت ایران کے روحانی پیشواکی طرف سے اپنے پاکستانی ہمنواوں کیلئے منتخب نمائیندہ ہے ۔جسے ان کی اصطلاح میں نمائندہ آیت اللہ کہا جاتا ہے ۔مجھے یقین ہے آپ کیلئے یہ بات بھی کوئی سربستہ راز نہیں ہوگی کہ اس مسلک کی طلبہ تنظیم کے نیچے سے اگر ایران نکل جائے تو یہ تنظیم ہوا میں تحلیل ہوجائے۔اس پر بات نہیں کریں گے اسی کی دہائی میں ایران کے کندھے پر چڑھ کر اپنا شملہ بلندرکھنے والی جماعتوں اور شخصیات نے کیا کردار ادا کیا ،البتہ اتنا تو ضرورکہوں گا کہ قومی سلامتی کے اداروں کومطلوب وہ شخصیات جن کا تعلق اسی مسلک سے ہے ان کے لئے اگرکسی ملک کی آغوش محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوئی توخیرسے وہ ایران ہی ہے۔اس مسلک کا اور اس کی پینتیس فیصدشخصیات کی ایران سے عقیدت اور وابستگی کوئی قابل اعتراض امر ہرگز نہیں ہے۔قابل اعتراض امر صرف یہ ہے کہ ان پینتیس فیصد افراد کا نعرہ ”سب سے پہلے ایران“ ہے۔ان کیلئے پاکستانی اداروں کی پالیسیاں ایرانی پیشواوں کی رسمی گفتگوکے مقابلے میں بھی کوئی معنی نہیں رکھتیں۔یہی وجہ ہے پینتیس فیصد ہونے کے باوجودیہ طبقہ اپنے مسلک کے اس پینسٹھ فیصدکے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے جو ایران سے احترام کا رشتہ تو رکھتا ہے مگرپاکستان پر کبھی بھی فوقیت نہیں دیتا۔اور ظاہر ہے کہ اس مسلک کا پیسٹھ فیصداس لئے پس منظر میں چلا گیا ہے کہ ایران کے روحانی پیشوا ان پر دست شفقت رکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ابھی کل کی ہی بات ہے،اس مسلک میں ایک نئی جماعت نے جنم لیا اور پلک جھپکتے میں کراچی سے لے کر پاری چنار تک ناقابل یقین رفتارسے چھاگئی۔وجہ؟مکمل تحقیق کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا کہ روحانی پیشوااس جماعت کی قیادت سے خاص شفقت فرماتے ہیں۔
ارض پاک پر ایک مسلک ایسا بھی ہے عرصہ ہوا جنہیں سعودی شاہوں کے مصاحب بننے ک اعزاز حاصل ہے، اور زمانے میں اتراتے پھرتے ہیں۔شاہوں اورمصاحب کا یہ رومانس ان دنوں اس قدر شدت اختیار کرگیا ہے کہ مدینہ یونیورسٹی جیسی عالمی معیار کی یونیورسٹی پر انہی کا راج ہے۔اس یونیورسٹی باقی مسلکوں کی تو صلاحیتیں بھی کالمعدوم کی سی حیثیت رکھتی ہیں مگر اس ایک مسلک کی تو وہاں پاکستانی اداروں کی طرح صرف پرچیاں کام کرتی ہیں۔پاکستان میں کئی فرلانگ پر واقع ان کے اداروں کا طرزتعمیراوراس کے سنگ مرمر سے جینون عود و عنبرکی اٹھتی خوشبوئیں آپ کو اس بات کا پتہ دیں گی کہ صرف ڈالر ہی نہیں بلکہ ریال کی کرشمہ سازیاں بھی حیران کن ہوا کرتی ہیں۔پاکستان میں ان کی زن زن کرتی سڑکوں پر دوڑتی فوربائی فورگاڑیوں میں جھانک کر کبھی ایندھن کا جائزہ لیں تو شاہ عبدلعزیزآئل ریفائینری کی روحانی مہک کئی ایسے رازوں سے پردہ اٹھا ئی گی کہ طبعیت عش عش کر رہ جائیگی۔ان کے جرائد ورسائل اٹھایئے توبجا طور پرالفاظ و حروف کوشاہوں کے دربار میں مجراکرتے پائین گے۔ٹوپی و دستار سے توخیر یہ تکلف نہیں فرماتے البتہ آنکھوں کو خیرہ کردینے والے ان کے لہراتے رنگا رنگ چغے اگرسعودین برانڈ نہ ہوں توطبعیت میں بے چینی سی محسوس کرتے ہیں۔شاہانِ ارضِ حجازکا مصاحب بننا کوئی ایسا عمل نہیں کہ جس کوتنقید کا نشانہ بنایا جائے۔البتہ قابل افسوس رویہ ہے کہ شاہوں کے یہ مصاحب اپنے مقابل دو مسلکوں کے چہرے کواس قدر بھیانک سانچوں میں ڈھال کر شاہوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہین بچتا کہ وہ انہیں اسلام دشمن اور مشرکین مکہ کا عکس سمجھیں۔سویہی وجہ ہے کہ ایک مسلک پر تو حجاز کے دروازے یوں مقفل ہیں کہ انہیں نفرت کی علامت بناکرتفرقے کی آگ کومززیددہکا دیا، اور ایک مسلک پردروازے اس قدر وا کردیئے گئے کہ وہ اگر جوتوں سمیت بھی مسجد حرام میں داخل ہوںتو اعمال نامے میں نیکی ہی لکھی جاتی ہے۔
یہاں ایسے مسلک بھی پائے جاتے ہیں جس کے ولولہ انگیز خطیبوں ،آتش مزاج کار کنوں،صاحبزادوں ،گدی نشینوں اور مزارات کے مجاوروں کی پرورش براہ راست مغرب کررہاہے۔وہ فیملیوں سمیت نیویارک میں اترتے ہیں اوررواداری کے خیموں میں روشن خیالی کی قندیلیں روشن کرکے صوفی ازم کا سبق مغرب سے پڑھتے ہیں اور پھرلوٹ کرخانقاہوں میں میڈاِن برطانیہ اگربتیاں جلا کرہماری اصلاح کیلئے محفل جماتے ہیں۔یہ اولیاءکے اس قدر چاہنے والے ہیں کہ اگرشدت پسندوں کے ہاتھوںبونیرمیں پیرباباکے مزارکی ایک تختی بھی الٹ جائے تویہ دہشت گردوں کے خلاف اعلان بغاوت کرکے لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں مگرجب امریکہ بہادربغداد”شریف“میں پیران ِ پیر شاہ عبدالقادرجیلانی کا پورا مزارملیامیٹ کردیتا ہے تویہ مریدین کوصبر کی تلقین فرماتے ہیں کہ صوفی ازم میں احتجاج کی گنجائش نہیں ہے۔انہی سطور میں پہلے عرض کیا تھا کہ وہ طاقتیں جنہیں اپنی ریاستوں میں مساجدکے مینارناقابل برداشت ہیں کیا وجہ ہے کہ یہی طاقتیں دن دہاڑے پنجاب کے مجاوروں کومزارات کے میناربلندکرنے کیلئے ڈالروں کی صورت میں ”عطیات“فراہم کرتی ہیں؟ان مسلکوں کے یہ خطبا اور مجاور اولیاءاور اکابرین کی تعلیمات بروئے کارلاتے ہوئے اتحاد اور اتفاق کے عمل کو شجرسایہ دار قراردیتے ہیں۔مگران کی وحدت کا دائرہ صرف اپنے مسلک کے گرد گھومتا ہے اورتمام مکاتبہائے فکر کے وحدت کوشجرممنوعہ قرار دیتے ہیں۔اگرمجھ سے پوچھیئے تو اہل مغرب سے تعلق استوار کرنا کوئی قابل اعتراض رویہ نہیں۔مگر اہل حرم اگر اسلامی تعلیمات کے اسرار ورموزکی تفہیم کیلئے باادب ہاتھ باندھے اہل کلیسا کے روبروتشریف فرماہوں تو بتلایئے کہ ہنس ہنس کر جان دے دی جائے یا پھرکسی دیوار سے سرٹکرا دیا جائے؟
یہ ان مقدس ہستیوں کی بات ہوئی جو چوبیس گھنٹے مذہب کی محفوظ آڑلے کر اپنی سیاہ کاریوں کا دفاع کرتے ہیں۔مگر دوسری طرف ہماری غیر سیاسی جماعتوں عالم کیا ہے؟ایک کھلی کتاب کی طرح وضح ہے کہ کس کے محلات ڈالروں سے تعمیرہوئے اور کس کے کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھویں میںدرہم ودنانیرکی خبردیتے ہیں۔مگرمغرب سے بہتے ضمیرفروشی کے جمنا میں جو اشنان این جی اوز کی چرب زبان میموں نے کیا اس کی مثال لانا تاریخ کی بس کی بات بھی نہیں ہے۔اقوام متحدہ اور اس کی بالائی نشستوں پرراج کرتی طاقتوں کا اس خطے میں متعینہ اہداف تک پہنچنے کے تمام راستے انہی میموں کے گھروں سے گزرکرجاتے ہیں۔تحفظ انسانیت اور بقائے آدمیت کیلئے بیرونی طاقتوں سے اشتراک عمل کوئی قابل اعتراض بات نہیں،مگرصرف اپنے اکاونٹس کی تشنہ لبی مٹانے کیلئے ایک عورت کونامعلوم مقام پرلٹاکرکوڑاباری کا سین فلمانے کے مقصدکو اگر آسان سے آسان لفظوں میں بھی بیان کیا جائے تو کیا کہا جائے؟
نہیں ،ایسا نہیں ہے کہ ارض پاک پر بسنے والے مختلف نکتہائے نظررکھنے والے باہم متحد ہونا نہیں چاہتے۔یہ متحد ہونا چاہتے ہیں مگرہرطبقے میں موجودمتحرک شخصیات اور جماعتوں کی پالیسیاں ملک سے باہر بیٹھی قوتیں تشکیل دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک کی چاردیواری میں اپنی پالیسی خودمرتب کریں توظاہرہے کہ ہم اس خطے کی زمینی حقائق کو پیش نظر رکھیں گے۔لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ راہنمایانِ قوم کی سمت کا تعین بیرونی قوتیں کرتی ہوں تو بتلایئے وہ اس ملک کے مفادات کواپنے ممالک کے مفادات پرمقدم رکھنے کی ہمت کرپائیں گیں؟ہرگز نہیں۔ایک سوال پربات ختم کرتا ہوں جس پر آپ ضرور سوچیں۔ جب یہاں کی جماعتوں اور گروہوں کے مفادات غیرملکی سفارت خانوں سے اور سفارت خانوں کے مفادات مقامی پراسرار گروہوں سے وابستہ ہوجائے توسوچیئے کہ درمیان میں قومی مفاد کہاں جائے گا؟