ایک تھا بادشاہ
از فریدون
قوانین انتہائ سخت بناۓ گۓ تھے۔ مزدور ٹیکس دیے بغیر ایک تنکا بھی گھر نہ لیجا سکتا۔ پولیس عوام کو عبرت دلانے کے لئے کسی کو بھی مقابلے میں مار ڈالتی کہ عبرت کی عبرت رہے اور عوام بھی شہادت کے درجے سے مستفیذ ہو سکے۔ ہاں مجرموں سے ہمارے بادشاہ کو نفرت تھی سو انہیں جی بھر کے دوزخ کمانے کا موقع دیا جاتا۔ایک بار بادشاہ کو اطلاع ملی کہ کچھ نام نہاد مسلمان رمضان کا مذاق اڑاتے ہوۓ سرِ عام کھا پی رہے ہیں۔ رحمدل بادشاہ نے ان جہنمیوں کو خدا کی لاٹھی کے لیے چھوڑ دیا مگر مزید لوگوں کو گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے ہر چیز کی قیمت میں ایک ہزار فیصد اضافے کا حکم صادر کر دیا تا کہ گناہ کے مواقع ہی نہ بچیں۔ ایک بار بادشاہ نے اخبار میں پڑھا کے کچھ لوگ سینما کے لیے بجلی چوری کرتے پکڑے گۓ۔ بادشاہ نے اسی وقت پورے ملک میں ایک ہفتہ کی لوڈشیڈنگ کا اعلان کر دیا۔ بادشاہ نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ بجلی کی بندش کی وجہ سے وفات پا جائیں انہیں شہید کا درجہ دینے کی قرارداد قومی اسمبلی سے پاس کروا کر اللہ میاں کو پیش کی جاۓ۔یہ گھر جو میرا تھا تیرا نہیں تھا
یہ گھر اب تیرا ہے میرا نہیں ہے
اس کے بعد بادشاہ نے ایک لمبی تقریر کے آخر میں نۓ بادشاہ کا ٹوسٹ تجویز کیا اور اسے عوام کی محبت جیتنے کے چیدہ چیدہ گر بتاۓ۔ اگلے دن ہمارے بادشاہ نے اسباب باندھا اور یورپ کی راہ لی کہ باقی عمر یادِ الٰہی میں بسر کی جا سکے