اور اب عالمی عدالت کا ڈرامہ
قاسم علی دیپالپور
جنوری کو پاکستان میں حقیقی دہشتگردی کے مرتکب ریمنڈڈیوس رہائی کے لئے امریکہ بہادر نے کیا کیا کوششیں نہیں کیں کبھی امداد بند کرنے کی دھمکیاں دی گئیں تو کبھی قطعہ تعلقی کے ڈراوے دیے گئے کبھی ریمنڈکو سفارتی استثنا دیکر رہا کرنے کا حکم دیا گیا تو کبھی القاعدہ قیادت کے پاکستان میں ہونے کے فسانے نئے سرے سے تراش کر پاکستان پر دباﺅ کی ناکام کوشش کی گئی لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت the worst democracey is better than best dictatorshipکا اعلیٰ نمونہ نظر آئی جس میں اگرچہ اب تک بے شمار خرابیاں نظر آتی ہیں لیکن ریمنڈ کے معاملے حکومت نے اب تک بہرحال جس ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے اس پر حکومت کے بعض مخالفین اگرچہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ حکومت اس معاملے پر مجبوراََ عوامی رائے کا احترام کر رہی ہے اور حقیقت میں اس معاملے میںحکومت کے اب تک خاطر خواہ لچک نہ لینے میں درحقیقت مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ کی خودکشی،شاہ محمود قریشی کی حق گوئی اور میڈیا و مذہبی تنطیموں کا رول زیادہ اہم ہے بہرحال وجہ جو بھی ہو یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجودکے اس دفعہ ماضی جیسا رزلٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے( جیسا کہ ماضی میں پاکستانیوں کو منڈی کا مال سمجھ کر قصاب امریکیوں کے حوالے کیا جاتا رہا) جس کا کریڈٹ بہرحال حکومت کو دینا چاہئے۔
لیکن اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس معاملے پر کسی قسم کے تعاون سے مایوس ہو کر امریکہ نے ایک نیا پینترا بدلہ ہے اور ریمنڈ کو بچانے کیلئے اس معاملے کو عالمی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جایا ہی نہیں جا سکتاکیونکہ اول عالمی عدالت کے پاس قتل کے مقدمات نمٹانے کا مینیڈیٹ ہے ہی نہیں وہ صرف دو ملکوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور دوسری بات یہ ہے ہے پاکستان نے عالمی عدالت کے اس آرٹیکل پر دستخط ہی نہیں کئے جس کے تحت دو ممالک کے درمیان تنازعہ خودبخود عالمی عدالت میں چلا جاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمران اب تک یہ کہتے آئے ہیں کہ ریمنڈ کا فیصلہ ہماری آزاد عدالتیں ہی کرے گی لہٰذا اب اگر حکومت اس کے برعکس ریمنڈ کیس عالمی عدالت کو ریفر کر دیتی ہے تو اس کی بڑی سبکی ہو گی دوسری جانب قابلِ غور بات یہ ہے کہ امریکہ تنہا اس کیس کو عالمی عدالت میں نہیں لے جا سکتا قانون کے مطابق کسی بھی کیس کے عالمی عدالت میں جانے کیلئے دونوں فریقین کی رضامندی ضروری ہے اورتشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس رضامندی کا عندیہ دےدیا گیا ہے جیسا کہ حناربانی کھر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ریمنڈ کو سفارتی استثنا حاصل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اب عالمی عدالت ہی کرے گی ۔
اب ہم عالمی عدالتِ انصاف کے ”انصاف”پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستان نے اس سے قبل تین دفعہ عالمی عدالتِ انصاف سے رابطہ کیا ہے لیکن ہر دفعہ اسے ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑا آخری کیس جو پاکستان اس عدالت میں لے کر گیا وہ بگلیہارڈیم تنازعے کا تھا جہاں پر بھارت واضح طور پر آبی دہشت گردی کا مرتکب ہوا لیکن اس کیس کا فیصلہ دو دنوں میں ہی پاکستان کے خلاف ہو گیاعلاوہ ازیں بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ چھوٹے ممالک کے تنازعات کے حل کرنے میں عالمی عدالت کوئی موثر کردار اسا کرنے میں ناکام ہی رہی ہے اس کے علاوہ عالمی عدالت ِ انصاف کے غیر موثر ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک پوری دنیا کے 207ممالک میں سے صرف 38ممالک نے اس کے چارٹر پر دستخط کئے ہیں اور دستخط نہ کرنے والے ممالک میں خود امریکہ بھی شامل ہے جس سے یہ بات صاف طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ عالمی عدالت بھی اقوام ِ متحدہ،آئی ایم ایف اور عالمی بنک کی طرح کا ایک ایسا ادارہ ہے جسے وقتاََ فوقتاََ عالمی طاقتیں اپنی مخصوص مفادات کیلئے استعمال کرتی رہتی ہیں ۔
دوسری جانب اس کیس میں ایک دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہو گئی جب امریکہ اور اسکی حمائت میں ہماری حکومت بھی ریمنڈ کو بچانے کی خاطر قتل کے اسلامی قانون دیت کا سہارا بھی لینے لگی جسے مقتولین کے ورثا نے سختی کے ساتھ مسترد کر دیااور خون کے بدلے خون کا تقاضا کرتے ہوئے ریمنڈ کو پھانسی لگانے کا مطالبہ کر دیا ۔ یوںامریکہ نے اپنے ایک انتہائی اہم کارندے کو بچانے کیلئے عالمی عدالت کا شوشہ چھوڑ دیا ہے یہاں پر حکومت کو ایک بار پھر ثابت قدمی اور ملی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ پر واضح کردینا چاہئے کہ ریمنڈ نے جرم پاکستان میں کیا ہے جہاں پر ایک قانون اور آزاد عدالتیں موجود ہیں جو اس کے مجرم یا معصوم ہونے کا فیصلہ کریں گی بلکہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ریمنڈ پر فوری جاسوسی کا مقدمہ بھی درج کرے جس کا اعتراف خود امریکی زرائع ابلاغ بھی کر چکے ہیں کہ ریمنڈ 27جنوری کو ایک ”خاص مشن ”پر تھا اور جہاں تک قتل کے مقدمے اور دیت کا تعلق ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ نہ صرف لواحقین کی فوری مالی امداد کرے بلکہ اس کیس کیلئے بھی انہیں سہولیات دے اور ان پر کسی بھی قسم کے دباﺅ سے احتراز کرتے ہوئے انہیں آزادانہ طور پر ریمنڈ کے متعلق فیصلہ کرنے دے ۔یہاں پر ایک اہم نقطعہ یہ بھی ہے کہ مقتول کے لواحقین اگر ریمنڈ کو قتل معاف کر بھی دیں تو پھر بھی وہ ریمنڈ کے جاسوسی کے جرم کو معاف نہیں کر سکتی یہ معافی صرف ریاست ہی دے سکتی ہے جس نے ابھی تک یہ مقدمہ ہی درج نہیں کروایا۔قصہ مختصر یہ ہے کہ اس وقت امریکہ پاکستانی عدالت سے خوفزدہ ہے اور ماورائے عدالت ہی اس کو رہائی دلاناچاہتا ہے اب گیند حکومت کی کوٹ میں ہے کہ اس کیس کو عالمی عدالت میں لے جانے کے نام پر اس کی رہائی کا بندوبست کر کے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی ہے یا عدل و انصاف کے تقاضوں اور قومی وقار و سلامتی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے ملک میں اپنے قانون کے مطابق اس کا فیصلہ کرکے نام نہاد سپر پاور کووہ سخت پیغام دیتی ہے جس کی عوام کواہش رکھتے ہیں ۔