اسرئیلی فوج کا دھاوا،20افراد ہلاک،30 زخمی ،پاکستانی صحافی یر غمال |غزہ آزادی بیڑے پر اسرائیلی حملے کی عالمی سطح پر مذمت
غزہ آزادی بیڑے پر اسرائیلی حملے کی عالمی سطح پر مذمت
وائس آف امریکہ لکھتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی امدادی تنظیموں اور میڈیا کے نمائندوں کو امدادی اشیاء غزہ لے جانے والے فریڈم فلوٹیلا یا آزادی بیڑے پر اسرائیلی بحریہ کے حملے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد دنیا بھر میں اس کی مذمت کی جارہی ہے۔
’’یونان کے 30باشندے بھی آزادی بیڑے پر سوار تھے اور اس واقعے کے خلاف یونان نے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ختم کردی ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پلے کا کہنا ہے کہ پرتشدد حملے میں ہونے والی ہلاکتیں ایک تکلیف دہ واقعہ ہے جب کہ یورپی یونین نے اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین آشٹون نے غزہ کی گزرگاہ کو فوری اور غیر مشروط طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکی نے اسرائیلی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا ہے اور ان سے وضاحت طلب کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس واقعے کے دوطرفہ تعلقات پر ”ناقابل تلافی نتائج“ برآمد ہوں گے۔ترک نائب وزیر اعظم نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ تین دفاعی مشقوں کو بھی منسوخ کررہا ہے ۔پیر کودارالحکومت انقرہ میں مشتعل افراد نے اسرائیلی سفیر کی رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور اسرائیل مخالف نعرے لگائے۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اسے ”صیہونی حکومت کا غیر انسانی فعل “ قراردیا ہے اور عرب لیگ کے سربراہ امر موسیٰ نے واقعے کو ”جرم“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 22ممالک پر مشتمل تنظیم اس بارے میں اگلے لائحہ عمل پر مشاورت کررہی ہے۔
غزہ جانے والے آزادی بیڑے پر کویتی پارلیمنٹ کے ایک رکن سمیت 16باشندے بھی سوار تھے ۔ کویتی پارلیمان کے سپیکر نے اسرائیلی حملے کو غیر انسانی جرم قرار دیا ہے اور اس بارے میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
عرب اور مسلم دنیا کے علاوہ یورپ میں بھی اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔
سپین اور یونان نے بھی اسرائیلی سفیروں کو طلب کرکے ان سے اسرائیل کے اس اقدام کی وضاحت طلب کی ہے اور کہا ہے کہ ایسا حملہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
یونان کے 30باشندے بھی آزادی بیڑے پر سوار تھے اور اس واقعے کے خلاف یونان نے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ختم کردی ہیں۔
فرانس کے وزیر خارجہ برنارڈ کوئچنر نے اسرائیلی کارروائی کو افسوس ناک قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تشدد کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے بھی اسرائیلی حملے میں ہونے والی ہلاکتوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ جانے والے امدادی بحری قافلے پر حملے کا یہ واقعہ ایک وقت پیش آیا ہے جب واشنگٹن میں امریکی صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہوکے درمیان رواں ہفتے ملاقات ہونے جارہی ہے۔
اسرئیلی فوج کا دھاوا،20افراد ہلاک،30 زخمی ،پاکستانی صحافی یر غمال
جنگ نیوز کے مطابق :…غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لے جانے والے سمندی قافلے پر اسرائیلی حملے میں ہلاک افراد کی تعداد20ہوگئی ہے جبکہ30سے زائد زخمی ہیں۔مغویوں میں پاکستانی صحافی اور اینکر طلعت حسین بھی شامل ہیں ۔صبح چار بجے اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک کے حکم پر اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی سمندر ی حدودمیں فلسطینیوں کے لئے امدادی سامان لانے والے”آزادی بیڑے” پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں20 افراد مارے گئے اور30 زخمی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے کشتیوں میں سوارکارکنوں اور میڈیا کے اہل کاروں کو حراست میں لے لیا۔ امدادی قافلے میں پاکستانی صحافی طلعت حسین اور ان کے پروڈیوسر کے علاوہ ایک پاکستانی این جی او کے رضاکار ندیم احمد بھی شامل ہیں۔ پاکستانی صحافی اور اینکر طلعت حسین کا اپنے دفتر صبح6 بجے آخری رابطہ ہواتھا۔دوران گفتگو طلعت حسین نے بتایا کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے اپنی آخری گفتگو میں کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کے آنے کے بعد کیا ہوگا، کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔دوسری جانب اسرائیل کا موقف ہے کہ6 کشتیوں پر مشتمل اس امدادی بحری بیڑے نے اسرائیلی بحریہ کی طرف سے واپس لوٹ جانے کے حکم کو نظر انداز کردیا۔جس کے بعد ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ امدادی کارکنوں کا کہناتھا کہ ان کے سفر کا مقصد10ہزار ٹن امدادی سامان غزہ کے شہریوں تک پہنچانا ہے جن پر2007 سے اسرائیل نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔
DW World لکھتا ہے اسرائیلی کارروائی پر پوری دُنیا میں غم و غصے کا اظہار:
غزہ کے لئے امدادی سامان لے کر جانے والے بحری جہازوں کے خلاف اسرائیلی کارروائی کو پوری دُنیا میں ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اِسے ’قتلِ عام‘ قرار دیا ہے۔ ترکی نے اسرائیل پر بین الاقوامی قانون توڑنے کا الزام عائد کیا ہے کیونکہ بحری جہاز بین الاقوامی پانیوں میں تھے۔ اِس واقعے پر عالمی سلامتی کونسل نے آج پیر کو ہی اپنا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔ یونانی حکومت نے بحیرہء ایجین میں اسرائیل کے ساتھ جامع فضائی مشقیں منقطع کر دی ہیں۔ یورپی یونین کے صدر ملک اسپین نے اِس کارروائی کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ ترکی سمیت متعدد ممالک میں اسرائیلی سفیر طلب کئے گئے ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اسرائیلی فوج کی کارروائی پر ’’گہری تشویش‘‘ ظاہر کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اِس واقعے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی امن عامہ کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ مظلوم کی مدد ظالم نہ صرف کا ہاتھ روک کر کی جائے بلکہ ظالم کا محاسبہ بھی کیا جائے مگر المیہ یہ ہے کہ اگر ظالم اسرائیل ہو تو اخلاقیات سارے کا سارا دھرا رہ جاتا ہے اور اسکی دیدہ دلیری کو لگام نہیں دی جاتی۔ امت مسلمہ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اب ٍصرف احتجاج کرنے کی بجائے ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں اور ظالم کو ناکوں چنے چبوادیں