50 سال کی عمر کے بعد خواتین کو میموگرافی کی ضرورت ہوتی ہے
50 سال کی عمر کے بعد خواتین کو میموگرافی کی ضرورت ہوتی ہے
تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ
میموگرام سے مجموعی طورپر40 سے 60 سال کی عمر کی تقریباً 15 فی صد خواتین کو بریسٹ کینسر سے ہلاک ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ جب کہ 40 سے 50 سال کی عمر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ صرف ایک اعشاریہ چار فی صد ہوتا ہے۔ جب کہ ان میں اس مرض سے ہلاکت کا خطرہ اور بھی کم ہوتا ہے۔
ایک حالیہ طبی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ اکثر خواتین کو 50 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل میموگرافی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میموگرافی بریسٹ کینسر کی سکریننگ کے لیے کی جاتی ہے جو خواتین کے مہلک امراض میں سے ایک ہے۔ نئی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہے جنہیں 50 سال کی عمر سے قبل سکریننگ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
گذشتہ کئی برسوں سے 40 سال کی عمر کو پہنچنے والی خواتین کو ہر سال یا ہر دو سال میں ایک بارمیموگرافی کرانے کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ لیکن یوایس پریوینٹو ٹاسک فورس کی جانب سے جاری ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 40 سال کی عمر کو پہنچنے والی خواتین کو میموگرافی کے بارے میں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس عمر میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے اپنا معائنہ خود کرنے کا بھی کوئی فائدہ ظاہر نہیں ہوا۔ جب کہ ڈاکٹر 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو اپنا معائنہ خود کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدید خطرے کے گروپ میں شامل خواتین کو باقاعدگی سے اپنی میموگرافی کرانی چاہیے۔ اس گروپ میں ایسی خواتین شامل ہیں جن کے خاندان میں یہ مرض موجود ہے۔
یوایس اے ٹوڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کو بھی زیادہ میموگرافی کی ضرورت نہیں ہوتی اور50 سے74 سال تک عمر کی خواتین کوہر سال کی بجائے دو سال میں ایک بار میموگرافی کرانی چاہیے۔
فینکس میں قائم ایری زونا سٹیٹ یونیورسٹی ٹاسک فورس کی نائب صدر ڈیانا پٹیٹی کہتی ہیں کہ اس رپورٹ کی معلومات کی روشنی میں طبی ماہرین اپنی سفارشات پر نظر ثانی کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ 50 سال سے کم عمر خواتین کو میموگرافی سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے میموگرام سے مجموعی طورپر40 سے 60 سال کی عمر کی تقریباً 15 فی صد خواتین کو بریسٹ کینسر سے ہلاک ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ جب کہ 40 سے 50 سال کی عمر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ صرف ایک اعشاریہ چار فی صد ہوتا ہے۔ جب کہ ان میں اس مرض سے ہلاکت کا خطرہ اور بھی کم ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 50 سال سے کم عمر خواتین کو ان ٹیسٹوں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ خاص طورپر اس صورت میں جب ٹیسٹ صحت مند خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکان کے بارے میں غلط اطلاع دیتا ہے۔ جس کے بعد خواتین کو مزید پیچیدہ معائنوں سے گذرنا پڑتا ہے جو تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں اور پریشان کن بھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے دو سال کے دوران 40 سے 50 سال کی عمر کی 64 فی صد خواتین نے اپنا میموگرام کرایا جب کہ 50 سے65 سال کی خواتین کے گروپ میں یہ شرح 72 فی صد تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس سال ایک لاکھ 93 ہزار خواتین بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوجائیں گی اور 40 ہزار خواتین اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوجائیں گی۔
امریکن کینسر سوسائٹی نے اس نئی رپورٹ پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بریسٹ کینسر سے ہلاک ہونے والی خواتین میں تقریباً 17 فی صد ایسی ہوتی ہیں جن میں اس مرض کی تشخیص اس وقت ہوئی تھی جب ان کی عمر 40 اور 50 سال کے درمیان تھی۔
امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے کے ایک حالیہ شمارے میں بتایا گیا ہے کہ میموگرافی سے اکثر اوقات تیزی سے پھیلنے والے کینسر کی نشان دہی نہیں ہوپاتی جبکہ ایسی رسولیاں ظاہر ہوجاتی ہیں جو بالعموم کسی بڑے خطرے کا باعث نہیں ہوتیں۔
بریسٹ کینسر ایکشن نامی تنظیم کی ایک رکن باربرا برنر جو اس مرض سے صحت یاب ہوچکی ہیں، کہتی ہیں کہ اس رپورٹ کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین اس پر بھروسہ نہیں کریں گی کیونکہ اکثرخواتین کا خیال ہے کہ میموگرافی نے ان کی زندگیاں بچائی ہیں۔
بشکریہ VOA