علم الادراک اور نئی دنیائیں
کیا ہم اپنی زندگی کی کہانی کے خود لکھاری ہیں یا پھر صرف عملی کردار ادا کر رہے ہیں؟
کیا واقعات ِزندگی خود بخود ہماری راہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں؟
کیا ذمہ داریاں کسی دلچسپ کھیل کیطرح آسان ہوسکتی ہیں؟
کامیاب زندگی کے ذرائع کیا ہیں؟
تحریروتحقیق:محمدالطاف گوہر
میرے موضوعات اور تحاریر زیادہ تر ” مائنڈ سائنس” جسے علم الادراک بھی کہا جا سکتا ہے، اس کے حوالے سے ہوتی ہیں ، مائنڈ سائنس ایک جدید اور عالمگیر اہمیت کا حامل سائنس کا شعبہ ہے جس میں سائنسی انداز میں یہ مطالعہ کیا جاتا ہے کہ انسانی ذہن کس طرح سے معلومات کا اظہار کرتا ہے اور کیسے انکو تبدیل کرتا ہے جبکہ اسکا یہ مطالعہ بنیادی درجہ کے سیکھنے کے عمل سے لیکر ایک انتہائی اعلیٰ قسم کے کمپیوٹر پراجیکٹ ڈیزائن کرنے کے درجہ تک کیا جاتا ہے جبکہ اس عمل میں علم نفسیات ، کمپیوٹر سائنس، میڈیکل سائنس ، عمرانیات ، لسانیات ، فلسفہ و دیگر علوم کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔
اس شعبہ میں یہ ناچیز ایک طالب علم کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی تحقیق کو مضامین کی شکل بھی دیتا رہتا ہے۔ اسی حوالے سے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانی زندگی میں جو سب سے اہم چیز ہے یعنی "ذہن”، جسکے بارے میں ہمارے ملک میں بہت کم کام ہوا ہے حالانکہ کے دنیا بھر میں ان شعبوں پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے ، لہٰذا میں اس شعبہ کے موضوعات کو ترجیحی بنیادوں پر لکھنا پسند کرتا ہوں تا کہ "علم الادراک ، یعنی مائنڈ سائنس ” کے حوالے سے اس ملک کے عوام میں شعور پیدا کر سکوں اور اس نئی سائنس کو سمجھنے اور اس کے ثمرات سے مستفید ہونے کے بارے میں آگاہی بڑھا سکوں۔
علوم کی ابجد بنائی جائے یا پھر انسائیکلوپیڈیا کھولا جائے تو یہ بات واضع طور پر سامنے آتی ہے کہ بنی نوع انسان نے کبھی بھی حالات کے آگے ہتھیار نہیں پھینکے بلکہ بہتر سے بہتر کی تلاش جاری رہی جبکہ اس سارے عمل میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس میں انداز سائنسی ہو یا غیر سائنسی مگر نتائج بہر حال قابل رشک رہے ہیں۔ اگر ہم ایک طرف سائنس کو علم کے متبادل نام سے جانتے ہیں تو دوسری طرف مائنڈ کو عقل کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ، لہٰذا عقل کا علم ہر انداز، زمانے اور ارتقائے تہذیب میں تمام علوم پر حاوی رہا ہے ، اکیسویں صدی کے سارے ثمرات اگر اکٹھے کئے جائیں تو مائنڈ سائنس کا پلڑا سب سے بھاری ہوگا ۔ عقل ِ سلیم ہر فرد کی خواہش ہے اور یہ ا سی صورت ممکن ہے کہ انکو افکار تازہ سے لبریز رکھا جائے جبکہ افکار تازہ ہمیشہ آئینہ کیطرح شفاف اور بہتے پانی کیطرح پاکیزہ ہوتے ہیں۔
گزشتہ تحریر میں جس موضوع کا انتخاب کیا تھا اس کے پبلش ہونے کے بعد بہت سے تشنہ لب گفتہ ہوئے ، کچھ بازگشت سنا ، کہیں تشنگی بڑھی اور کوئی جام چھلکا گیا۔
کیا ہم اپنی زندگی کی کہانی کے خود لکھاری ہیں یا پھر صرف عملی کردار ادا کر رہے ہیں؟
کیا واقعات ِزندگی خود بخود ہماری راہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں؟
ناکامی کیا ہے ؟
معاملات زندگی کا سمجھنا ضروری ہے یا کہ ان سے گزر جانے کی صلاحیت کافی ہے؟
کامیاب زندگی کے ذرائع کیا ہیں؟
کیا ذمہ داریاں کسی دلچسپ کھیل کیطرح آسان ہوسکتی ہیں؟
آئیے ایک نئی دنیا کا ایک باب دیکھیں ، زندگی کو اپنی حقیقی نظر سے دیکھیں اور اس حقیقت سے روشناس ہوں جو کبھی خطا نہیں کھاتی ، جی ہاں ! ہم اپنی علیحدہ علیحدہ دنیائیں رکھتے ہیں ،مگر جانتے ہوئے ، نہ جانتے ہوئے ، چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے اپنی دنیا کو دوسروں کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں مگر دیکھ نہیں پاتے ، دوسروں کی طرح کی کامیابیاں اپنی زندگی میں لانا چاہتے ہیں مگر حاصل نہیں کر پاتے ، جو خوشیاں دوسروں کی جھولی میں کھیلتی نظر آتی ہیں انکو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر امید بر نہیں آتی اور مایوسیوں کے بنے جال میں جکڑے رہتے ہیں ، اگر محبت دوسروں کے گلے کا ہار بنتی ہے تو ہم نفرتوں کے کانٹے چنتے رہ جاتے ہیں ، اگر ہمارے حالاتِ زندگی پھیکے ہیں تو دوسروں کے خواب بھی رنگ بھرے ، اگر دوسرے پتھریلی زمین پر پاوں ماریں تو پانی نکل آئے اور ہم زرخیز میدان میں قوتیں بھی صرف کر دیں تو پانی کے آثار بھی نظر نہ آئیں ۔ کیا وقت کا پہیہ اسی طرح صدیوں تک ہماری شکستہ حا لی کو لادے نا معلوم منزل کیطرف چلاتا رہے گا ؟
نہیں ایسی بات نہیں کیونکہ دنیا نہ تیری ہے نہ میری ہے بلکہ اس دنیا سے ہم اپنی اپنی دنیائیں دریافت کرتے ہیں اور اسکو ہم اپنی اپنی نظر اور زاویہ سے دیکھتے ہیں اور جو اخذ کرتے ہیں وہ ہماری اندرکی دنیا کا عکس ہے۔ ورنہ باہر کی دنیا ایک ہی ہے مگر نقطہ نظر اور تجربات زندگی مختلف۔ کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین کسی کو دنیا (زندگی ) حسین و دلفریب نظر آتی ہے اور کسی کو خادار جھاڑی یعنی ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنا علیحدہ ہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’میں ڈوبا تو جگ ڈوبا‘ یعنی ایک دفعہ ایک شخص ، جو کہ پانی میں ڈوب رہا تھا، اس نے شور مچایا کہ مجھے بچاﺅ دونہ تمام یہ دنیا (جگ) ڈوب جائے گی۔ لوگوں نے اسے بچا کر کنارے پر پہنچایا اور پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک کہ تم ڈوب رہے تھے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں ڈوبا تو جگ ڈوبا؟ وہ شخص بولا بھئی اگر میں ڈوب کر مر جاتا تو میرے لئے تم سب مر گئے تھے نا یعنی میرے لئے تو دنیا ختم ہوگئی تھی “
اس مثل میں کتنی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے۔ اب اندر کی دنیا بھی کئی منزلہ عمارت کی مانند ہے جسے ہم بچپن سے لے کر مرنے تک تعمیر کرتے ہیں اور اس کی منزلوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ہم میں سے کچھ لوگ تو اس عمارت کی بیسمنٹ میں رہتے ہیں کچھ گراونڈ فلور پر اور کچھ سب سے اوپر والی منزل پر۔ آپ اندازہ کریں کہ جو شخص اس کئی منزلہ عمارت کی بیسمنٹ میں رہتا ہو جہاں حشرات الارض (کیڑے مکوڑے) اور بدبودار ماحول ہے اسکو کس طرح سے اندازہ ہو سکتا ہے اس شخص کی زندگی کے بارے میں جو سب سے اوپر والی منزل میں رہتا اور قدرت کے نظارے ، صبح سورج طلوع ہونے کا منظر ، بادلوں کا آنا جانا ، غروب ہونا کا منظر وغیرہ دیکھتا ہے۔ غرض اپنے ہی اندر کوئی عذاب میں مبتلا ہے اور کوئی سکون کی لذت سے مالامال ہے۔
یعنی یہ کئی منزلہ عمارت ہمارے اپنے اندر (ذہن ) میں بنے ہوئے ماحول (Mind Set ) ہیں جن میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کبھی تکلیف نہیں کرتے کہ اسکے بارے میں معلوم کریں؟ بچن سے اب تک جو کچھ ہم دیکھتے آئے ہیں، سنتے آئے میں سب کا سب ہمارے ذہن کا حصہ بن چکا ہے مگر اس سب کو ہم باہر سے اندر غیر جانب دار ہو کر ریکارڈ نہیں کرتے بلکہ اپنے عقیدہ (Belief System)کے تحت مرضی کی اشیاء اپنے ذہن کا حصہ بناتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ذہن میں شاندار طریقے سے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ ہم تہہ در تہہ اس کو ذخیرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سب ہماری زندگی پہ براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
اب اگر آپ نے اُردو زبان لکھنی پڑھنی سیکھی ہے تو آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ورنہ آپ کے سامنے یہ آڑی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ تحریر کسی ایسی زبان میں لکھی ہوتی جسکو کہ آپ جانتے نہیں تو کس طرح سے ممکن تھا کہ آپ اِس کو پڑھ سکتے اور پھر اِسکو سمجھ سکتے؟ یعنی ہماری باہر والی دُنیا پر ہماری اندر والی دُنیا کی چھاپ ہوتی ہے اور ہمیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جس کا عکس ہمارے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے ، لہٰذہ دنیا کے جو رنگ ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں ان میں سے ہمیں وہی کچھ نظر آتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں ، مگر کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ زندگی اپنا ہر رنگ نچھاور کر رہی ہے ، اگر ایک طرف اذیت کا دور دورہ ہے تو دوسری طرف لطف و کرم کے جام بھی لنڈھائے جا رہے ہیں ، اگر ایک طرف خوشحالی آ پنی شان کی طولانی میں نظر آتی ہے تو دوسری طرف مفلسی نے کمر توڑ کر رکھی ہوئی ہے ، اگر ایک طرف پستی کی گہری کھائیاں ہیں تو دوسری طرف مخملی بلند و بالا چوٹیاں سینہ تانے کھڑی ہیں ، اگر ایک طرف ناکامیوں کے گرداب ہیں تو دوسری طرف کامیابیوں کے شادیانے بھی بج رہے ہیں، مگر یہ سب کچھ اس پر منحصر ہے کہ ہم معاملات پر کس طرح سے پہنچ کرتے ہیں۔
اگر دُنیا کو ایک معصوم چڑیا کی نظر سے دیکھا جائے جس کے گھونسلے میں پڑے ہوئے بچے ایک سانپ کھا رہا ہے
تو دُنیا ہمیں کتنی ظالم دکھائی دے گی مگر اسی لمحے اِس بھوکے سانپ کی نظر سے دُنیا کو دیکھا جائے
تو دُنیا کتنی مہربان نظر آئے گی کہ بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا ملا ہے مگر ہمیں اِن نقطہ نظر سے کیا لینا دینا؟
ہمیں تو صرف اِتنا سمجھنا ہے کہ وہ کون سے
زاویے (Angle)،
واسطے (Channel)،
نظرئیے(Concept) اور
بیج (Seed)
ہیں جو کہ ہماری زندگی کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں ہمارے سامنے تو زندگی (دُنیا) فطرت کے شاہکاروں سے بھری پڑی ہے مگر ہماری نظر میں وہ زاویہ کہاں ہے، وہ رابطہ کہاں جو اِن شاہکاروں کو ملاحظہ فرمائے؟ اپنی نظر میں اتنی بصارت کہاں۔ ہمارے قلوب کے زنگ وہ پردے ہیں جو ہمیں سکون، راحت اور خوش بختی اور صحت کے تحفے حاصل کرنے سے دور رکھتے ہیں۔ ہمیں تو وہی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ جسکی چھاپ ہمارے قلوب میں پڑ چکی ہے یعنی جیسا بیج ویسا ہی پھل، اکثر اوقات خوشیاں ، مسرتیں ، راحتیں اگر کسی ذریعے سے ہمارے پاس آتی ہیں مگر اندر کے دشمن اسے اندر گھسنے نہیں دیتے اور بد بختی کی گرداب میں ڈبوئے رکھتے ہیں ۔
اگر کہیں ہمیں زاویے درست کرنے ہیں تو کہیں نئے واسطے تلاش کرنے ہیں اور کہیں نظریئے درست کرنے ہیں اور کہیں بیج نئے بونے ہیں کیونکہ ہم خود رو جھاڑی نہیں، اور نا ہی پتھر ہیں کہہ زمانے کی ٹھوکروں پر پل بڑھ رہے ہیں اور نہ ہی بے شعور لاشے کہ اچھے برے کی تمیز نہ کر سکیں بلکہ ہم ہی اس قدرت کے سب سے حسیں شہکار ہیں کہ ہر شے ہماری زندگیوں کو سیراب کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہیں کہ ہم اپنی "پہچان "حاصل کرلیں۔
تحلیل نفسی، تذکیہ نفس ، منازل سلوک اور فیضِ نظر ایک ایسا ہی عمل ہے جیسا ایک بنجر زمین پر ہل چلانا اور پھر اِس کو وقت کی دھوپ میں چھوڑ دینا تا کہ اِس کے اندر کی جڑی بوٹیاں، غلط زاوئیے ، واسطے اور نظریے خود بخود فنا ہو جائیں اور ذہن کی زمین بیج بونے کے قابل ہو جائے اور پھر اِس میں خود شناسی کا بیج لگا کر مراقبہ کا پانی دیا جائے اور اس "اپنی دنیا”کے پودے کی نشوونما کی جائے تو پھر کہیں جا کر "لذتِ آشنائی ” کا پھل نصیب ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے اِتنی ثابت قدمی ممکن ہے کیونکہ الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پرونا تو آسان ہے مگر مقامات آگہی میں غوطہ زن ہونا بڑے جگرے کی بات ہے البتہ گہرے سمندر میں غوطہ زنی نہ سہی مگر کنارے کنارے رہ کر کچھ تو سیکھا اور حاصل کیا جا سکتا ہے؟
(یہ مضمون میری زیر طبع کتاب” لذتِ آشنائی ” کا ایک باب ہے ، آپکی آرا ء اور تبصرے میرے لئیے نئی راہیں مرتب کرتے ہیں جن سے میں ہر حال میں فیض یاب رہنا چاہتا ہوں)
mrgohar@yahoo.com