زمین کی امانت
تحریر : محمد الطاف گوہر
اشیائے صرف اور آلات ِ زندگی افراد کی زندگی کیلئے ہر طرح کی سہولیات سمیٹے ہوئے ہیں ، جبکہ انکو بناتے وقت انکے سازندہ و کاریگر اگر ایک طرف انکی کارکردگی کو قلمبند کرتے ہیں تو دوسری طرف انکے خاتمہ اور معیاد کو بھی لکھ کر محفوظ کرتے ہیں تاکہ صارفین ان اشیاء کے استعمال سے مکمل طور پر آگاہ رہیں ۔ البتہ یہ معاملہ صرف اشیائے صرف تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے مختلف شعبہء جات میں اگر نظر ڈالیں تو معاملہ ایک جیسا ہی دکھائی دے گا، اگر کوئی نئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو اسکی معیاد بھی مقرر کر دی جاتی ہے تاکہ یہ معلوم رہے کہ یہ عمارت کب تک قابل استعمال رہے گی ۔
معاملاتِ دنیا تو بے شمار ایسے اعدادوشمار سے بھرے پڑے ہیں مگر حضرت انسان بعض اوقات بھول جاتا ہے کہ اسکے بنانے والے نے بھی افراد کی زندگی کی ایک معیاد (Expiry Date) مقرر کر رکھی ہے اور وہ ٹل نہیں سکتی، البتہ انسان بحرِ دنیا میں اتنا غرق ہو جاتا ہے کہ اکثر بھول جاتا ہے کہ اسکی زندگی کا سفر بھی اس دنیا میں ایک نہ ایک روز ختم ہونا ہے جسکے سامنے سائنس ، فلسفہ یا منطق کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اذہان عالم اپنے اکتسابی عمل میں چاہے کتنی قلابیں ملائیں مگر عقل یہاں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے کہ اس گتھی کو کیسے سلجھا ئے ، کس انسان کی کب واپسی ہو اس کے بارے ہیں کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو پیش بینی کر سکے اور نہ ہی اسکے بارے میں کوئی حتمی اطلاع ہے ، ماسوائے الہامی ذرائع کے کہ جو وہ خبر دیتے ہیں اسکو مان لیا جائے۔
ہر صبح ہم اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادے اس زمین پر آتے ہیں ،دن گزارتے ہیں اور پھر رات کو واپس چلے جاتے ہیں ، اور یہ سلسلہ ء زندگی اپنے انجام تک یوں ہی چلتا رہے گا، جبکہ دنیا کی ہر شے اپنے انجام کی طرف رختِ سفر باندھے ہوئے ہے ۔ بعض اوقات افراد یہ بھول جاتے ہیں کہ معاملہ زندگی تو بہت طویل نہیں، مگر وہ اثاثے بناتے ہیں اور محلات تعمیر کرتے ہیں اور انکی نگہبانی میں زندگی گنوا دیتے ہیں اور واپسی کے وقت ملال جو کہ لاحاصل، اور کبھی کبھی انا ء کی طغیانی بھی سمندر میں اٹھتی ہوئی موج کی طرح ہے جو یہ بھول جاتی ہے کہ آخر اسے پھر اسی سمندر میں آکر مل جانا ہے تو اتنا تلاطم کیسا ؟
مرزا صاحب عمر کی اسی بہاریں دیکھ چکے مگر گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل بیمار تھے ، زندگی بڑی ٹھاٹھ سے گزاری ، دولت جائیداد کے ساتھ ساتھ افسری بھی کی ،نہ صرف بہت سے غربا ء کی کفالت کا ذمہ لیا بلکہ ایک عدد مدرسہ کیلئے جگہ مختص اور وقف کی اور اسکی ذمہ داری بھی لے رکھی تھی۔ایک ٹانگ کی کمی نے انکی وضح داری پر کبھی حرف نہ آنے دیا اور اپنے دونوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم سے ہمکنار بھی کیا جس کے باعث دونوں ڈاکٹر بنے اور اچھے روزگار کے ساتھ ساتھ عوام کی خدمت کا جذبہ بھی لئے ہوئے ہیں۔یوں تو مرزا صاحب ہر سال اپنا مکمل چیک اپ کرواتے اور اپنی صحت کا مکمل خیال بھی رکھتے تھے مگر کچھ عرصہ سے انکی صحت گرتی جارہی تھی۔
ایک روز انکے بیٹے ، ڈاکٹر صاحب کا فون آیا کہ مرزا صاحب کی طبیعیت بہت خراب ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں ، آپ بھی پہنچیں ،اور جب ایمرجنسی میں مرزا صاحب کو بیڈ پر تڑپتے دیکھا تو فوراً میں نے اپنا ہاتھ انکے پیٹ ہر رکھ دیا کیونکہ وہ بار بار اپنے پیٹ پر ہاتھ مسل رہے تھے ۔ مرزا صاحب کا جسم سرد تھا ، بفضل ربی انکی حالت درست ہوئی اور اپنے گھر واپس آ گئے۔ مگر چند روز بعد پھر تکلیف بڑھی اور دوبارہ ہسپتال داخل ہوگئے ، تمام عزیز و اقارب اللہ کے حضور دعائیں مانگنے لگے ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انکی گرتی صحت اور حالت اور بڑھاپے کی عمر کو دیکھ کر کیا دعا مانگوں؟ مگر پھر زندگی کی طمع نے یہی الفاظ ادا کرنے پر مجبور کیا کہ رب العزت مرزا صاحب کو تندرستی عطا کرے ، اور بفضل ِربی مرزا صاحب کی حالت کچھ بہتر ہوئی اور اپنے گھر واپس آ گئے۔
پچھلی جمعرات کو صبح سے ہی ایک بات ذہن میں گونج رہی تھی کہ مرزا صاحب کی مسلسل بیماری اب اس مقام پر لے آئی ہے کہ انکی زندگی انکے لئے اذیت بنتی جارہی ہے ، تکلیف و کرب انکے جسم میں اتنا گھر کر چکے ہیں کہ جہاں اب صحت مندی بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی لہذا انکی زندگی سے انکو کیا حاصل؟ شام سے پہلے ڈاکٹر صاحب جو مجھ سے بہت انس رکھتے ہیں اور دیندار بھی ہیں انکا فون آیا کہ ابو کی حالت بہت خراب ہے ۔جبکہ مغرب کے وقت اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو اذیت اور کرب سے نجات د لادی اور مرزا صاحب رحلت فرما گئے۔
موت نے اذیت کو مات دی ، زندگی کے کہر برساتے لمحے اور صحت کیلئے ترستی نگاہیں خاموش ہو گیں جبکہ اک فرد کی زندگی کا باب مکمل ہوا ۔جہاں وقت کا پہیہ زندگی کے ماہ و سال بانٹ رہا ہے وہاں افراد اپنی اپنی منزل پر پہنچ کر عدم سدھار جاتے ہیں جبکہ نفرتیں ، محبتیں ، خواہشیں اور مصروفیات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
جمعہ کی نماز کے بعد مرزا صاحب کا جنازہ پڑھایا گیا اور انکے آخری دیدار کیلئے بہت سے لوگ موجود تھے ، نوجوان جو لاپرواہی میں کسی بھی شے سے نا آشنا صرف شرکت کرنے آئے تھے اور جلدی میں لگ رہے تھے ، ادھیڑ عمر کے لوگ جو کسی طور بھی لا پرواہ نہ لگ رہے تھے اور خاموش کھڑے تھے مگر وہ بوڑھے جو اس جنازہ میں آئے تھے انکی آنکھوں میں کبھی یاس کا عالم جھلکتا ، اور کبھی لگتا کہ جیسے یہ پتھرا سی گئی ہوں اور کبھی انکی آنکھیں خلا میں ٹکٹکی باندھے کسی گہری سوچ میں غرق لگتیں۔
میت کے ساتھ قبرستان میں پہنچتے ہی ایسے لگا جیسے سارے زمانے کے غم دھل گئے ہوں ، اک عجیب سا سکون کا احساس جیسے ساری پریشانیاں اور مسلے حل ہوگئے ہوں۔ دنیا کے سارے بکھیڑے جیسے ختم ہوگئے ، لمحات ِ زندگی جیسے تھم سے گئے،اک بے مقصد سی دوڑ جیسے رک گئی ہو۔ ہر طرف کتبے سر اٹھائے کھڑے تھے جیسے آبادی میں مکانات اپنا وجود برقرار ر رکھنے کی خاطر سینے پر اپنے مکینوں کی تختیاں سجائے کھڑے ہوں۔ مٹی کی اونچی نیچی قبروں کے درمیاں پگڈنڈیاں جیسے آبادیوں میں گلیاں اپنے راہ گزروں کے استقبال کیلئے نچھاور ہو رہی ہوں، اور یہاں کے درخت جیسے خزاں کو سمیٹے ہوئے کھڑے ہوں۔قطار اندر قطار ابدی نیند سوئے ہوئے لوگ اپنی منزل کو پہنچ چکے ۔ روح تو لافانی ہے اور پرواز کر جاتی ہے مگر جسم اس زمین کی امانت ہے جو اسے لوٹانا ہے۔
آفرین ہے ان لوگوں پر جو اس دنیا میں آئے اور ایمان و سلامتی کی روش پر مستقل مزاجی سے چلتے رہے جبکہ زندگی کی طویل اور کٹھن راہوں پر انکے قدم کبھی نہ ڈگمگا ئے، اور ایمان کو سلامت رکھا اور جاتے ہوئے بھی قلبِ سلیم کے ساتھ مطمئن رخصت ہوگئے۔ اور حیف ہے ان پر جو خوامخواہ کی مشقت میں لگے رہے اور بے حسی کے ساتھ دوسروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی انا ء کی اٹھان میں مگن رہے، ہر جائز و ناجائز حربے سے ہوس پرستی میں مبتلا رہے جبکہ دنیا میں بھی بے چینی اور خلفشار کا شکار رہے اور جاتے ہوئے بھی ملال ۔ بقول میاں محمد بخش ؒ صاحب؛
شام پیئی بن شام محمد
تے گھر جاندی نے ڈرنا