تحریر: محمد الطاف گوہر
وصل کی بند سیپ آج کھولی تو بیقرار لمحے اچانک چھلک کربکھرگئے ، ان سچے موتیوں کو پرونے بیٹھ گیا کہ تیری خوشبو میں بسی مہک لپکی اور مجھے ناقابل فراموش وادیوں میں لے گئی۔ہر موتی تیری قربتوں کی لا متناہی داستان سمیٹے ہوئے ہے۔زندگی کی کلی نے محبت کی گود میں جنم لیا تو اسکی مہک بقا (سلامتی) کا پیغام لیکر ہر سو پھیل گئی جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ نا صرف اس سے مامور ہوا بلکہ محو رقص ہو گیا۔ لمحوں نے بھی رخت سفر باندھا ، مگر نا آشنائی کا دور دورہ ہے اور آگاہی سے بھی قربت نہیں لہذا کبھی خوابیدگی کا عالم ہے اور کبھی آشنائی کا۔ جبکہ بقا کی لذت سے سرشار لمحوں نے قیام کیا اور خوابیدہ لمحے سیل رواں کے تھپیڑوں میں بہتے کسی کائی کیطرح عدم سدھار گئے۔
میں کا بار عزیز اٹھا ئے ہوئے خیرو شر کی راہوں پہ چلتے ہوئے لمحے اکثر اس کے لازوال حسن سے نا آشنا رہے۔ کبھی تو اس گراں قدر میں کا جلوہ معاملات کی تگ و دو میں پنہاں رہا اور کبھی نیم خوابی کے عالم میں یہ جلوہ اک رنگیں خواب کیطرح سراب بن کے رہ گیا۔ اور جب کبھی ب
انسانی جذبوں کا انسائیکلوپیڈیا کھولا جائے یا پھر جذبوں کی ابجد بنائی جائے تو سب سے بلندی پر صرف ایک ہی جذبہ نظر آئے گا اور وہ ’محبت ‘ کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔انسانیت کو عظمت کی بلندی پر پہنچانے میں محبت کا جذبہ پیش پیش ہے۔ اس حقیقت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ محبت کی ڈوری کے بغیر رشتوں کے موتی مالاوں میں پروئے جا ئیں،بلکہ یہ صرف محبت کا ہی ثمر ہے کہ افراد ایک صحت مند معاشرہ کے محرک رکن بنتے ہیں اور انکے روابط امن و آشتی کے بندہن میں بندے رہتے ہیں جہاں نفرت کی پرچھائیاں نہیں پڑتیں۔
محبت کا جغرافیہ دیکھا جائے تو یہ جذبہ اپنی عالمگیریت اور آفاقیت کے باعث لازوال ہے اور کسی بھی طور عمر،رنگ و نسل اور علاقہ پر محیط نہیں، جبکہ لامحدود ہونے کا ساتھ ساتھ نہ صرف اس کرّہ عرض پر بسنے والی تمام مخلوق اس میں غرق ہے بلکہ اس کائنات کا ذرہ ذر
محبت کی سائنس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے محبت میں انسانی بائیو کیمسٹری میں تبدیلی آتی ہے ، ذہن جب محبت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے تو سائنسی تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوشی کا عنصر شامل ہوتے ہوئے ایڈرنالائن نیورو ٹرانسمیٹر متحرک ہوجاتے ہیں اور دل کی دھڑکن تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ بے چینی کا اظہار بھی ہوتا ہے ، جبکہ دوسرے مرحلے میں محبت کرنے والوں کے اذہان اب ڈوپامائن نیورو ٹرانسمیٹر سے لبریز ہو جاتے ہیں جسکے باعث ایک نشے جیسی کیفیت کا احساس ہوتا ہے ، طبیعیت خوشی کے جذبے سے لبریز ہوجاتی ہے ’چاہنے اور پانے‘ کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔اضافی توانائیوں کا احساس ہوتا ہے ، نیند اور بھوک کی کمی پیدا ہوتی ہے جبکہ توجہ میں ٹھہراو آجاتا ہے جوکہ خوبصورتی ، لذتِ لاثانی اور اس محبت کے بندھن کی چھوٹے سے چھوٹے لمحے کی تفصیلات پر مرکوز ہوتی ہے۔ اسی طرح تیسرے درجہ پر سیروٹونائن نیوروٹرانسمیٹر کا افراز ہوتا ہے اور ڈوب جانے کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے اس کیمیکل کو محبت کا اہم عنصر کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ خیالات اور سوچوں کے انداز کو تبدیل کرتا ہے کہ محبت کا پھول نظارہ جاناں میں کھوئے ہوئے محبوب کے آنگن کو کو مہکا دیتا ہے۔
محبت کی نفسیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جذبہ محبت سے سرشار فرد تصور ِ محبوب میں ڈوبا رہتا ہے اور اسی طرح ایک نظریہ کہ محبت اندھی ہوتی ہے بھی صادق نظر آتا ہے کہ اکثر اپنے محبوب کو آئیڈیل بناتے ہوئے اسکی اچھائیوں اور خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر مگر اسکی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پیش کرتا ہے۔محبوب کو تقدس کے آبگینوں میں سجاتا ہوا محسوس کرتا ہے کہ اس رشتے سے بڑھ کر اور بہتر رشتہ کوئی نہیں لہٰذا اس طرح دونوں ایک مضبوط ڈوری سے بندھ جاتے ہیں۔ ان لمحات میں انسان محبت کے اگلے درجہ میں قدم رکھتا ہے جسے ’ قربت ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
محبت کا رنگ انسانی چہرے پر ایک نکھار پیدا کرتا ہے جس کے باعث چہرہ پرکشش ہوجاتا ہے اور آنکھوں میں گہری مستی چھاجاتی ہے،سوچوں میں ارتکاز اور آواز میں جادو کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔لمحات چاہے وصل کے ہوں یا فراق کے اک انجانی لذت کا احساس پیدا ہوتا ہے جبکہ فضاوں میں بھی نظارئہ محبوب کاسماں بندھ جاتاہے۔ طبعیت میں ایک ٹھہراوسا آجاتا ہے ،جبکہ ہرآواز پر دئہ سماعت پر موسیقی کا سماں پیدا کرتی ہے اور ہر طرف خوبصورتی کا دورودورہ ہوتاہے ،خواب بھی رنگین ہوتے ہیں اور خیال بھی مرکوز ، اس دورِ انسانی کو افراد کا موسم بہار کہا جائے تو بجاہوگا۔
کھو جانے والی اس کیفیت کو حاصل کرنے کیلئے کسی ’ مصنوئی پیار‘ کی ضرورت نہیں بلکہ دیدئہ دل وا کیجئے اور ’ ذہنی تصاویر‘ کو تبدیل کرنے والی ٹیکنالوجی کا سہارا لیجئے ، جی ہاں! اپنے ذہن کے پردئہ سکرین پر ’نفرت‘ کو ملاحظہ کیجئے اور پھر ان جڑی بوٹیوں کو ذہن سے اکھاڑ پھینکئے ، کرنا صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں رشتوں میں اور معاملاتِ زندگی میں ’ نفرت‘ کی تصویریں نظر آ ئیں ، انہیں پہلے ذہن کی پردئہ سکرین پر واضح کریں اور پھر سمیٹتے سمیٹتے ایک مہمل سے ذرہ کے برابر متصور کریں اور آخر میں دھویں کی طرح فضاوں میں اڑادیں۔اس طرح سے اب ’نفرتیں‘ بے وقعت ہوگئی ہیں۔
محبت کا مراقبہ بھی شناسائی کا ایک عمل ہے جس میں ایک فرد معاملہ محبت کے آمنے سامنے والے زاویہ پر ہوتا ہے۔ روح و قلب کو اس لازوال جذبہ سے سرشار کرنے کیلئے تو محبوب کا تصور ہی کافی ہوتا ہے ، محبوب کے خیال میں بے خیال ہونا ہی معنی رکھتا ہے۔ مجازی طور پر تو جس فرد کو یاد کرکے اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہواور جو تنہائیوں کا ہمراز بن جائے ، انسان غیر اردی طور پر اس کے پیار میں مبتلاہو جاتا ہے ، اسکا تصور اور یاد، ایک انجانی خوشی کی کیفیت سے دوچار کرتی ہے، جبکہ یہ غیر ارادی مراقبہ ءمحبت کہلاتا ہے ، اور اگر افراد اس تجربہ سے نہ گزرے ہوں تو اس کا حصول صرف ایک طور ہی ممکن ہے کہ کسی بھی فرد سے چاہت اور اس کے تصور کو اپنے اندر بسا لینا ہی اس کیفیت سے دوچار کردیتا ہے، اوریہی امر انمول لمحوں کو قید کرنے کا موجب بنتا ہے۔
حقیقی محبت کا اگر ادراک حاصل کرنا ہو تو اس کائنات کی وسعتوں کو دیکھیں اور قدرت کے بے پناہ نظاروں کو ملاحظہ فرمائیں ، رب العزت نے انسان کیلئے کیسی کیسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر کوئی ساری زندگی بھی اس کا شکر ادا کرتا رہے تو کم ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے خود بھی محبت رکھتا ہے اور بندے بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ۔
قران کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ؛
یحبھم و یحبونہ (المآئدہ:54)
اللہ ان سے محبت کرتا ہے ، وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں
وھوالغفورالودود(البروج:14 )
وہ بے حد بخشنے والا اور کمال محبت کرنے والا ہے
اسماالحسنٰی میں الودود، یعنی بڑا محبت کرنے والا، اس اسم مبارک کو تصور کریں ، اور دعا گو ہوں کہ الٰہی ہم کو اپنی محبت عطا کر اور جو کوئی تجھ سے محبت رکھتا ہے اس کی بھی محبت عطا کر اور اس عمل کوبھی محبت دے جو ہم کو تجھ سے قریب بنا دے۔اور باہمی محبت کو ترقی دیں ، محبت نفسانی و شہوانی کو پامال کرکے محبت روحانی وایمانی کو بڑھانے میں کوشاں رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ؛
الاَخِلَّائ یَومَئِذٍ بَعضھم لِبَعضٍ عَدواِلَّا المتَّقینَ (43:67)
(جو آپس میں) دوست (ہیں) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار (کہ باہم دوست ہی رہیں گے) (43:67)
یعنی قیامت کے دن سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے ، ان کے سوا جن کی محبت کی بنیاد للہیت پر ہوگی۔