امیدوں کے چراغ
تحریر :محمد الطاف گوہر
مایوسی کی چار دیواری میں ، نفرتوں کی چادر سی تنی ہوئی تھی اور ہجر کے آنگن میں سایہ تو درکنار تپتی دھوپ میں حسرتوں کی شاخوں سے چپکے زرد پتے بھی ہلکی سی ہوا چلے تو سیٹیاں بجاتے جسے کسی ناگہانی کی آمد آمد ہے مگر لمحے اپنی موج میں مگن کسی انجانے سرور میں غرق بے پرواہی کی روش پر چل رہے تھے۔ مشقتوں کی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور صبر کے طوفان چل رہے تھے مگر لمحوں کو امید کی برسات کے پہلے قطرے کا شدت سے انتظار تھا ۔
من کی عمیق گہرائیوں میں برداشت کے مد و جزر اٹھتے تو اتھاہ گہرائیوں سے تسلی کے موتی اور اطمینان کے لال برآمد ہوتے جبکہ لمحے بے خودی کے جھروکے سے جھانک کر مسرت کے موتی بکھرتے، مگر وقت کا پیمانہ لبریز ہوتا تو لمحوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکو پچھاڑنے کی کوشش کرتا مگر اسے ہر بار بے بسی کا منہ دیکھنا پڑتا اور اسی کش مکش میں لمحوں کی لازوال موج انہیں لذتِ آشنائی میں غرق رکھتی۔
اچانک ابر نے آگے بڑھ کر مایوسی کی زمیں کو لپک کر بوسہ دیا اور امید کا ایک قطرہ اسکی نظر کیا ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف جل تھل ہوگئی ، مایوسی کی زمیں اب خوش قسمتی کا زرخیز میدان بن گئی جبکہ حسرتوں کی شاخوں پر زرد پتے پھر سے ہرے ہونے لگے، اپنی موج میں مگن لمحوں نے میدان عمل کو بغور دیکھا تو اس پتھریلی زمیں سے کامرانی کا چشمہ ابل پڑا جبکہ الفتوں کی فاختائیں اور پیار کی تتلیاں نہ جانے کہاں سے امڈ آئیں ۔مایوسیوں کی زمین اب بہار کی رتوں میں تبدیل ہوگئی جبکہ ہر طرف شادمانی کا چرچا ہوا اور لمحوں نے انگڑائی لی تو باد صبا محو رقص ہوئی اور وصل کی چھاوں، ہجر کی دھوپ کے سامنے سینہ سپر ہو گئی ، اور ہر طرف پرندے محبت کے ترانے گانے لگے۔
انسانی زندگی اس وقت اک گرداب میں دھنس جاتی ہے جب وہ مایوسی کا شکار ہوتی ہے، افراد اگر امید کے چراغ جلائے رکھیں تو کچھ بعید نہیں کہ اندھیری راہیں روشن ہوں اور منزل آساں ہو جائے ۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہر راہ کامیابی پہ جا کر ختم ہو ، بعض اوقات غلط راہ کے مسافر اپنی منزل کھو دیتے ہیں مگر وہ الٹے پاوں واپسی اختیار کریں تو یہی راہیں انکے لئیے تجربہ کی شمعیں بن جاتی ہیں کہ وہ منزل کا نشان کھو نہیں پاتے بلکہ اپنا سفر کامیابی کی راہوں پر ڈال دیتے ہیں اور آخر اپنی منزل پا لیتے ہیں۔