تحریر: بابر نایاب
سر حامد جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئے نوشی کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا اور نوشی کی آنکھیں بڑی بے باکی سے نوجوان لیکچرا ر سر حامد کا طواف کرنے لگیں۔سر حامد نے اپنے مخصوص انداز میں سب کو سلام کیا اور ہمیشہ کی طرح سب کی خیریت دریافت کی اور پھر اپنا سبجیکٹ پڑھانا شروع کیا ،سبھی سٹوڈنٹس ہمہ تن گوش ہو کر سر حامد کا لیکچر سننے لگے لیکچر ختم ہونے کے بعد سر حامد نے مسکراتے ہوئے کہا ،میں بھی آپ لوگوں کی عمر سے گزرا ہوں اور مجھے علم ہے لیکچر سننے سے بڑھ کردنیا کا کوئی مشکل کام نہیں اب دیکھو تو سہی ایک بندہ بولے جائے اور سب کو سننا پڑے اور پھر پوچھنے پر دہرانا بھی پڑے کتنا مشکل کام ہے نا؟سر آپ کا لیکچر ہم خوشی اور مسرت سے سنتے ہیں اور یقین مانیے آپ کا لفظ لفظ ہمارے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے عاطف نے کھڑے ہو کر سر حامد سے کہا۔سرجی آپ کی باتوں میں سحر ہے جو ہمیں جکڑ لیتا ہے آپ کی باتیں تو مجھے ذ را بھی بور نہیں ہونے دیتی ،نوشی نے اپنے لبوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ لاتے ہوئے سر حامد سے کہا اور کچھ سٹوڈنٹس نے معنی خیز انداز میں نوشی کو دیکھا سب جانتے تھے کہ نوشی یونیورسٹی کی سب سے بے باک اور ماڈرن لڑکی ہے جس کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ کھلے عام بیان کر دیتی ہے ۔کرن تم کبھی بھی نہیں بولی کلاس میں کیا میرا لیکچر آپ کو سمجھ نہیں آتا ؟سر حامد نے کرن سے پوچھا جو خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی بلیک گاﺅن نے مکمل طور پر کرن کو ڈھانپ رکھا تھا کرن کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں ،سر مجھے جو سمجھ آتا ہے وہ میں ہمیشہ پیپرز میں آشکار کرتی ہوں اور مجھے آپ کا ہی نہیں بلکہ ہر ایک کا لیکچر سمجھ آتا ہے کیونکہ میں یہاں صرف سمجھنے کے لےے آئی ہوں اور سمجھ خاموشی سے بھی آ جاتی ہے وہ بتانے کی محتاج نہیں ہوتی ،نوشی کا جواب سن کر سر حامد کے چہرے پر تحسین کے تاثرات اُبھر آئے ،مگر سوال کرنے سے بھی آدھا علم حاصل ہو جاتا ہے آپ تو کبھی سوال ہی نہیں کرتی ،سرحامد نے کرن سے پوچھا،سر جی اُس کی نوبت ہی نہیں آتی آپ کا پڑھانے کا اندازہم لوگوں کے ذہن میں سوال کو جنم نہیں دیتا ،نوشی نے دھیمے لہجے میں کہا،سر حامد مُسکرائے اور پھر سب کو خدا حافذ کہ کر چلے گئے
لو جی گونگے بہرے اور پینڈو لوگوں کو بھی سمجھ آتی ہے سر حامد کی تو پھر ہمیں کیسے نہیں ا ٓئے گئی نوشی نے کرن پر طنز کرتے ہوئے اپنی فرینڈ صبا سے کہا یہ سن کر اُس کی فرینڈ صبا ہنس پڑی ،نوشی کے اس طنز پر کرن نے کوئی جواب نہیں دیا کرن جانتی تھی ایسے لوگو ں کو جواب نہ دینا ہی ایک طرح کا جواب ہے نوشی اکثر و بیشتر کرن پر اور اُس کے لباس پر طنز کرتی رہتی تھی مگر کبھی یہ نہیں ہوا کہ کرن نے پلٹ کر جواب دیا ہو بلکہ کرن ایسے ظاہر کرتی تھی جیسے اُس نے نوشی کی کوئی بھی بات سنی ہی نہ ہو ویسے بھی کرن کا زیادہ وقت اپنی کتابوں اور لائبریری میں گزرتا تھا اور کرن ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ اس کا نوشی سے ٹکراﺅ کم ہو مگر پھر بھی ٹکراﺅ ہو جاتا تھا
کرن پہلی بار جب یونیورسٹی آئی تو وہ بہت حیران ہوئی کیونکہ ایک چھوٹے پسماندہ سے شہر کے کالج سے پڑھی ہوئی کرن کو نہیں پتا تھا کہ یونیورسٹی کی کی دنیا بہت بڑی ہوتی ہے یہاں علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی ملتا ہے،وہ شعور کی باریکیاں بھی ملتی ہیں جو زندگی کے نشیب و فراز میں بہت اہمیت رکھتی ہیںاور جدیدیت کا لبادھا اُوڑھے اور پیسے کی ریل پیل میں پلے بڑھے وہ لوگ بھی ملتے ہیں جن کا کام صرف اپناجھوٹا امیج بنانا ہوتا ہے جو اپنے دین اور ثقافت کو محض ایک مذاق سمجھتے ہیں اور اُن صدیوں سے چلی آئی اقدار اور روایات کو بڑی بے رحمی سے روندتے ہیں اور اُن کو بھی روندتے ہیں جو ان اقدار کی لاج رکھتے ہیںیہی کاغذی لوگ سادگی سے
کرن اپنے کلاس میں واحد لڑکی تھی جو پورے پردے میں آتی تھی اور اسی وجہ سے سب سے مختلف بھی لگتی تھی مگر اپنے اخلاق اور شائستگی سے کرن نے سب کلاس والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا کلاس میں سب اُسے بڑے احترام اور عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر نوشی جو پوری یونیورسٹی میں سب سے ماڈرن ہونے کہ وجہ سے مشہور تھی کرن اُسے ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی تھی ایسی لیے کبھی وہ کرن کو مولون کبھی پینڈو تو کبھی کیا کہتی تھی اور کرن سے اس وجہ سے بھی حسد کرتی تھی کہ کرن کلاس کی سب سے ذہین لڑکی تھی ۔آج کل سر حامد نئے لیکچرار بن کر ان کی کلاس میں آئے تھے وہ جب سے یہاں آئے تھے تب سے نوشی اُن سے ایسے انداز میں بات کرتی تھی جیسے وہ اُستاد نہیں بلکہ نوشی کے کوئی دوست ہوں مگر سر حامد نے کبھی بھی نوشی کے اس انداز بیاں پر نہیں چونکے تھے بلکہ اُن کا رویہ سب سے ایک جیسا ہوتا تھا
یار تُجھے کیا بتاﺅں سر حامد تو قیامت ہیں قیامت جب سے اُنھیں دیکھا ہے نا سچ جانو میں اپنے ہوش و حواس ہی کھونے لگی ہوں ،نوشی نے خوابناک لہجے میں صبا سے کہا،دیکھ نوشی تُجھے پتا ہے نا کہ سر حامد میریڈ ہیں تیرا اس طرح اُن سے بات کرنا اور اُن پر مرنا ذرا بھی اچھا نہیں اور ویسے بھی وہ بہت با اصول ہیں اور کافی شریف بھی اگر اُنھیں تیری اس بات کا علم ہو گیا نا تو تیری خیر نہیں ،صبا نے سنجیدگی سے نوشی کو سمجھایا۔یار تو کیا ہر وقت مجھے ڈراتی رہتی ہے اُنھیں پتا کیا چلے گا میں خو دجلد ہی اُنھیں اپنے دل میں چھپے احساسات سے آگاہ کر دوں گئی اور ویسے بھی نوشی جیسی خوبصورت لڑکی کسی سے اظہار الفت کرے اور کوئی اُسے رسپانس نہ دے یہ ہو سکتا ہے کیا،خیر میں کیا کہ سکتی ہوں جیسے تیری مرضی تو نے تو کبھی اپنے ڈید مام کی بات نہیں مانی میری کیا مانے گئی ،صبا نے نوشی کے آگے ہتھیار پھینکتے ہوئے کہا۔دیکھو صبا میں نے زندگی میںجو کچھ چاہا ہے وہ مجھے پلک جھپکنے سے پہلے مل جاتا ہے اور تو دیکھتی رہ جائے گئی جب سر حامد میرے پیچھے پیچھے ہوں گئے دوسرے لڑکوں کی طرح ،نوشی نے انتہائی مغروری سے کہا
سر جی ،نوشی نے سٹاف روم سے باہر آتے ہوئے سر حامد کو مخاطب کیا ،سر حامد نوشی کی آواز سن کر رُک گئے اور سوالیہ نظروں سے نوشی کی طرف دیکھنے لگ گئے ،سر جی آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو ،آپ کو جو بھی کہنا ہے کھل کر کہیں ،سر حامد نے نوشی کو جواب دیا۔وہ سر جی آپ مُجھے بہت اچھے لگتے ہیں اور میں آپ سے پیار ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کے نوشی اپنا فقرہ مکمل کرتی سر حامد کی گونج دار آواز سنائی دی ۔خاموش ،سر حامد کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا ،اگر مجھے پتا ہوتاآپ مجھ سے یہ کہنا چاہتی ہیں تو میں کبھی نہیں رُکتاآپ کو علم نہیں کہ میرا آپ سے کیا رشتہ ہے و ہ رشتہ جو ایک باپ کا اپنی بیٹی سے ہوتا ہے اور آپ مجھے اس نظروں سے دیکھتی رہیں افسوس ہے آپ پر اور آپ کے خیالات پر جس نے تمام اخلاقی حدود کو پامال کر ڈالا ،یہ کہ کر سر حامد تیزی سے قدم بڑھاتے چلے گئے ،نوشی بالکل ساکت کھڑی سنتی رہی نوشی کو اپنی قوت سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے
ٓتجھے میں نے کہا تھا نا کہ سر حامد کتنے با اصول ہیںمگر تو میرے کہنے پر نہیں رکی اب حشر دیکھ لیا نا اپنا ،صبا نے نوشی کو کہا،نوشی نے صبا کو سر حامد کی ساری باتیں بتا دیں جو سر حامد نے اُسے کہیں تھی ۔ہاں تو سچ کہتی ہے صبا میں نے تیری بات نہیں مانی مگر سر حامد کو میری یوں انسلٹ نہیں کرنی چاہئے تھی ،نوشی نے غصے سے کہا۔دیکھوں بات انسلٹ کی نہیں بلکہ تجھے علم ہونا چاہئے سب ایک جیسے نہیں ہوتے سر حامد کالج کا کوئی کھلنڈا لڑکا نہیں بلکہ وہ ہمار ا اُستاد ہے اور اُستاد اُستاد ہی ہوتا ہے نوشی ۔
ٓکلاس روم میں کافی شور ہو رہا تھا ،آ ج ایک پیریڈخالی تھا ،کرن تمہیں پتا چلا ہے کہ سر حامد نے نوشی کو اچھا خاصا جھاڑ ا ہے کرن کے ساتھ بیٹھی فوزیہ نے کرن کو بتایا۔مجھے تو نہیں پتا مگر یہ سب تجھے کس نے بتایا ہے کرن نے فوزیہ سے پوچھا ،مجھے تو نازش نے بتا یا وہ وہاں سے گزر رہی تھی جب سر حامد نوشی کو غصے میں کچھ کہ رہے تھے ہم سب لوگوں نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ اس نے سر حامد کے ساتھ کوئی غیر اخلاقی بات کی ہے جسکی وجہ سے سر حامد نے اُسے ڈانٹا ہے ،انسان ہمیشہ اپنے عمل کی سزا بھگتتا ہے نوشی حد سے زیادہ آزاد خیال اور بے باک ہے اور ایسی بے باکی مشرقی لڑکی کو زیب نہیں دیتی ،کرن نے فوزیہ سے کہا۔ابھی باتیں جاری تھی کہ سر حامد کلاس میں داخل ہوتے ہیں اور اچانک شور تھم جاتا ہے
آج سر حامد بہت سنجیدہ نظر آ رہے ہوتے ہیں ،آج آپ لوگوں کو میں کچھ اور پڑھاﺅں گا مُجھے پتا ہے میرے بارے میں آجکل یہاں کچھ چہ مگوئیا ں ہو رہی ہیں سرحامد ایک پل کے لےے یہ کہ کر خاموش ہوتے ہیں اور پھر سب پر ایک نظر ڈا ل کر کہتے ہیں ،آپ لوگوں کا اور میرا رشتہ کیا ہے کوئی یہ بتائے گا ایک خاموشی چھا جاتی ہے اور حید ر کھڑا ہو کر کہتا ہے ،سر آپ ہمارے معزر اُستاد ہیں اور ہم آپ کے شاگرد ہیں ،وہ تو ٹھیک ہے مگر ایک اور بھی رشتہ ہے ،کرن کھڑی ہوتی ہے اور کہتی ہے ،سر وہ رشتہ روحانی باپ کا ہے جو آپ کا ہمارے ساتھ ہے ،ہاں بالکل ٹھیک کہا آپ نے مگر آ ج ہم کس رُخ پر کھڑے ہیں آج ہم یہ رشتوں کو بھول چکے ہیںآج ہماری آنکھوں میں نہ شرم ہے نہ حیا ہے آ ج ہوا کی بیٹی نے اپنا آنچل گرایا ہوا ہے آج ننگ بدن کو ہم فیشن کہتے ہیں وہ بیٹیا ں وہ بہنیں جو ہماری غیرتیں ہوتی تھی آج وہ ہماری آنکھوں کے سامنے بے شرمی کے اُس وجود میں نظر آتی ہیں جن کو دیکھ کر آنکھیں پھٹ جاتیں اورذہن ماﺅف ہو جاتا ہے مگر ہم اور ہمار ضمیر پھر بھی ہمیں کچھ نہیں کہتا وہ ہماری تہذیب جس کی دنیا میں مثالیں دی جاتیں تھیں آج وہ تہذیب سسکیا ں لے رہی ہے اور آج اُس تہذیب کو سفاکی سے روندا جا رہا ہے ہم دوسروں کی تہذیب اور ثقافت کو اپنا کر اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنا مذہب تنگ نظر آتا ہے ہم اس مذہب پر ٹھیک چلنے والے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اُنھیں تنگ نظر کہتے ہیں مگر آج کیا ہو رہا ہے ہم اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں جدیدت اور ماڈرن بننے کے لیے اپنی شرم عزت غیرت کو دفن کر بیٹھے ہیں مگر یاد رکھو آپ سب یہ شرم یہ حیا ہماری بہنوں ماﺅں کی میراث ہے اور یہ صرف کتابی باتیں نہیں زندگی کی وہ کھلی حقیقتیں ہیں جن سے ہم بھاگ رہے ہیں میں اس کلاس میں بیٹھی بچی کرن کو شاباش دیتا ہوں کہ اُس نے ہزاروں کی بھیڑ میں اپنے وجو د کو قائم رکھا ہے میں خراج تحسین پیش کرتا ہے اس کے والدین کو جس نے اپنی بچی کو حیا کے آنچل میں چلنے کی تربیت سکھائی ہے اور اپنی دین سے اُنسیت کا سبق سکھایااور میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس بچی کو سب احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گئے آ پ سب مُجھ سے نہیں مگر اس بچی سے ضرور سبق سیکھنا شاید میری باتوں نے کسی کی دل آزادی بھی کی ہو گئی مگر آپ سب کو جب تک میں یہ نہ بتاتا تب تک مجھے چین نہیں آنا تھا کیونکہ میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے میں اُسے کبھی نہیں بھولوں گا ۔سر حامد کی بات ختم ہوئی تو ایسا لگا کہ سر حامد کی باتوں نے جیسے کلاس میں سب کو جھنجنوڑ کر رکھ دیا ہو ۔نوشی کو زندگی میں پہلی بار اپنے آپ سے گھن آئی کلاس میں بیٹھی ہر لڑکی کے ذہن میں سر حامد کی باتیں گونجنیں لگیں سب کو سچائی کی وہ جھلک نظر آئی جن سے وہ کوسوں دور ہو چکی تھیں سبھی نے اپنے ذہن میں اپنی تہذیب کو دوبارہ اُجاگر کرنے کا اعادہ کیا اور کرن کی آنکھوں میں آنسو ا ٓ چکے تھے وہ سمجھتی تھی شاید اُس کو کوئی بھی نہ سمجھ سکے شاید وہ اس کلاس کی سب سے گمنام سٹوڈنٹ میں شامل ہو گئی مگر آج یوں اپنی تعریف اور اپنی اصلی تہذیب اپنانے پر اسے سب کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا اس کا کرن تصور بھی نہیں کر سکتی تھی اور آج اسے یہ عزت اور اعلی مقام صرف اپنے سر پر شرم کی چادر کو سلامت رکھنے پر دیا گیا تھا ۔