فرانس اپنا خطرناک تابکار کوڑہ روس بھيجتا ہے
فرانس، يورپ کے دیگر تمام ملکوں کے مقابلے میں سب سے زيادہ ايٹمی توانائی استعمال کرتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے ابھی تک تابکار ايٹمی فضلے کواپنے ملک ميں محفوظ طور پر ٹھکانے لگانے يا ذخيرہ کرنے کوئی انتظام نہيں کيا ہے۔
رودبارانگلستان يا انگلش چينل ميں جہاں سمندری لہريں نارمنڈی کے فرانسيسی ساحل سے ٹکراتی ہيں، اُس جگہ فرانس اپنے جوہری فضلے کو ٹھکانے لگاتا ہے۔ لا ہاگ کے مقام پر دنيا کی سب سے بڑی ايٹمی فرم Areva کے انجينئر، پُلو ٹونيم اور يورينیم کی استعمال شدہ سلاخوں کو دوبارہ قابل استعمال اجزاء اور بقايا کوڑے کی شکل ميں الگ الگ کرتا ہے۔ فرم کے ترجمان ژاک امانوئيل نے يقين دلايا کہ ايٹمی فضلے کو قطعی پيشہ ورانہ انداز ميں الگ الگ کيا جاتا ہے۔
” اس کے معيار بہت سخت ہيں اور ہم پوری احتياط کرتے ہيں کہ اُن کی سختی سے پابندی کی جائے تاکہ کسی قسم کے خطرے کا امکان کم سے کم رہے۔”
تاہم فرانس کی گرين پيس تنظيم کے رکن يانيک رُوسيل Areva فرم پر اعتماد نہيں کرتے۔ پچھلے موسم خزاں ميں اُنہوں نے ARTE ٹيلی وژن کے ساتھ لا ہاگ کے ساحل پر ايک پروگرام کيا اور ناظرين کو يہ دکھا کر حيرت زدہ کر دیا کہ فرانس کے انتہائی شمال ميں درحقيقت کيا ہوتا ہے:
” ميری بالکل پشت پر کوگيما گروپ کا پلانٹ ہے جو Areva کی ذيلی فرم ہے۔ يہ پائپ سمندر ميں جارہا ہے۔ يہ ساڑھے چار ميٹر لمبا ہے۔ اس پائپ کے ذريعے کوگيما ہر سال اتنا تابکار پانی سمندر ميں خارج کرتی ہے جو 100لٹر گنجائش والے 33 ملين ڈرموں ميں سما سکتا ہے۔”
ايٹمی فرم Areva کا کہنا ہے کہ سمندر ميں خارج کئے جانے والے تابکار پانی کی مقدار صرف ڈيڑھ ملين ڈرم ہے۔ اگر يہ صحيح ہے تب بھی يہ پانی، کوبالٹ 60 اور سيزيم 137 جيسے زہريلے مادوں کے جھينگوں اور سمندری گھاس ميں داخل ہوجانے اور انسان کے غذائی چکرميں داخل ہونے کے لئے کافی ہے۔
يہی نہيں بلکہ فرانس لا ہاگ ميں باقی رہ جانے والے تابکار اور يوں انتہائی خطرناک ايٹمی فضلے کا 10 فيصد سے بھی زيادہ حصہ روس ميں سائبيريا بھيج ديتا ہے۔ درحقيقت اس کی اجازت ہی نہيں ہے۔ ہرملک کو اپنا ايٹمی فضلہ خود ذخيرہ کرنا چاہيے۔ ليکن Areva ايک قانونی رخنے سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ استعمال شدہ جوہری سلاخوں کو دوبارہ استعمال کے قابل مادہ بناتا ہے اور اسے کہيں اور بھيجنے کی اجازت ہے۔ تاہم، گرين پيس کے ماہر کواس پر شک ہے کہ سائبيريا روانہ کيا جانے والا ايٹمی مادہ واقعی دوبارہ قابل استعمال ہے:
” اس کی مثال کچھ يوں ہے: آپ نے فرانس ميں ايک کلو نارنگيوں کا رس نکالا اور تابکار چھلکے روس بھيج ديے۔ اس وقت روسيوں کی بھی سمجھ ميں نہیں آ رہا ہے کہ ان تابکار چھلکوں کا کيا مصرف ہو سکتا ہے ليکن وہ کہتے ہيں کہ ايک دن تو ہم ان سے ايک گلاس رس نکالنے ميں کامياب ہوہی جائيں گے۔”
حقيقت يہ ہے کہ ماہرين اس وقت فرانس سے آنے والے يورينيم کے صرف 10 فيصد حصے کو کام ميں لا سکتے ہيں۔ روسی اپوزيشن کے سياسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فرانس سے روس بھيجےجانے والے ايٹمی مادے کا زيادہ تر حصہ سائبيريا ہی ميں ذخيرہ کر ليا جاتا ہے۔ يہ تابکار، اور يوں انتہائی خطرناک مادہ بالکل لاپرواہی سے ايک پارکنگ جگہ پر ذخيرہ کيا جاتا ہے جس کے قريب آبادی بھی ہے۔
فرانس اپنے ايٹمی فضلے کو ذخيرہ کرنے کے لئے کسی موزوں جگہ کی تلاش ميں عرصے سے سرگرداں ہے۔ بورے نامی ايک گاؤں ميں پچھلے 11 برسوں سے تجرباتی کھدائی ہورہی ہے۔ منصوبہ ہے کہ يہاں 500 ميٹر کی گہرائی ميں يہ ايٹمی فضلہ ذخيرہ کيا جائے گاجو دولاکھ برس تک تا بکاری خارج کرتا رہے گا، يعنی فولاد اور کنکريٹ سے بنے کنٹينروں کے ريزہ زيزہ ہوجانے کے بعد اُس وقت تک بھی، جب تابکار شعاعوں کو روکنے کے لئے صرف پتھروں کی تہيں ہی باقی رہ جائيں گی۔ اس منصوبے کے انجينئرژاک دیلے نے کہا:
” اگر يہاں اگلے 15 سے 20 برسوں کے اندر ايٹمی فضلے کا گودام تيار ہوجائے گا تو پھر شايد 200 سال تک اس گودام کی نگرانی کی جاتی رہے گی۔ ليکن يہ عين ممکن ہے کہ اس کے بعد اسے سرے سے فراموش ہی کرديا جائے۔”
ايٹمی فضلے کے اس گودام کو يادداشت ميں محفوظ رکھنا جرمنی کے لئے بھی ضروری ہے کيونکہ بورے کا وہ گاؤں جہاں فرانس کے ايٹمی فضلے کے گودام کی تعمير کا منصوبہ ہے، جرمن سرحد سے دور نہيں ہے۔ جرمنی کے شہر زار بريوکن سے اس کا فاصلہ 150 کلوميٹر سے زيادہ نہيں ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی