آج پاکستان پر پانی،پانی اورپانی ،تباہی،تباہی بس تباہی اور موت ،موت اوربس موت کاراج ہے…سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو دیکھ کر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ چکراکرگرگئے…یہ اِن کا قومی احساس تھا یا بیماری…؟؟
حکمران ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے کے بجائے قوم کو مصیبت سے نکالیں
تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
کوئی اِسے کچھ بھی کہے مگر میں اِس سے انکار نہیں کرسکتا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے سینے میں پاکستان اور پاکستانیوں سے بے پناہ محبت کرنے اور اِن کے دکھ دردکو شدت سے محسوس کرنے والا ایک انتہائی نرم دل دھڑک رہاہے اِسے لئے تو اُنہوں نے سیلاب سے متاثرین کی امداد کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سب سے پہلے50لاکھ روپے دینے کا اعلان کیاہے لیکن پھر بھی اِن کی جانب سے متاثرین سیلاب کو دیئے جانے والی امداد کی یہ رقم بہت کم ہے اِن سے اچھے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحق ڈار ہی رہے جنہوں نے اپنی جیب سے ایک ہی جھٹکے میں متاثرین سیلاب کی مددکے لئے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کرکے جہان وہ صدرمملکت آصف علی زرداری سے سبقت لے گئے تو وہیں اسحق ڈار اپنی پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف اور اِن کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے بھی جیت گئے ہیں جو آج کل سیلاب سے متاثرین کے امدادی کیمپوں کا دورہ تو روزانہ کررہے ہیں مگر میاں صاحبان اب تک اپنی جیبوں سے متاثرین سیلاب کے لئے امداد کی مد میں ایک ڈھیلابھی دینے کا اعلان نہیں کرسکے ہیں۔اِن کی پارٹی کے اہم رکن اسحق ڈار کی جانب سے متاثرین سیلاب کے لئے دی جانے والی اتنی بڑی رقم کا اعلان اب شائد میاں صاحبان ! کے لئے باعث ……..؟؟؟ہواور اَب وہ اسحق ڈار کو دیکھتے ہوئے اِن سے بڑھ کر رقم دینے کا علیحدہ علیحدہ اعلان کردیں۔
جبکہ اِسی طرح دوسری طرف یہ خیال کیاجارہاہے کہ 18فروری 2008کے عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اہم رکن اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی ملک میں آنے والے بدترین سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں اوربے شمار انسانوں کی ہلاکتوں سے شدید غم میں مبتلارہنے کے سبب بہاول پور میں اپنی پارٹی کے کارکن اور عہدیداروں سے ملاقات کے دوران اچانک چکراکر گرپڑے …..اِن کے گرنے کی وجہ اِن کی حب الوطنی تھی …… یا کوئی ….؟؟؟ بہرکیف! ڈاکٹروں نے اِن کا چیک اَپ کرنے کے بعد بتایا کہ اِنہیں شوگر یا بلڈ پریشر کم ہونے کے باعث اِس صُورت حال کا سامناکرنا پڑا۔جبکہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اِن کی جانب سے بھی اَب تک متاثرین سیلاب کے لئے امداد کی مد میں رقم کی صورت میں کوئی اعلان نہیں کیاگیاہے۔
پاکستان میں آنے والے اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنے خدشات سے پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو آگاہی دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارے ”ورلڈ میڑولوجیکل آرگنائزیشن“نے کہاہے کہ پاکستا ن میں80سال بعدآنے والے بدترین سیلاب سے 1600افراد کی ہلاکت اور اِسی طرح روس میں بدترین گرمی کی لہر سے سینکڑوں لوگوں کی ہلاکتوں کا اصل سبب گلوبل وارمنگ ہے اِس حوالے سے ڈبلیو ایم او میں ماحولیاتی ؑڈیٹامینجمنٹ کے چیف عمر بدر کا کہناہے اگرچہ آئندہ بھی دنیا میں شدید نوعیت کے ماحولیاتی واقعات ہوتے رہیں گے مگر یہاں میں یہ سمجھتاہوں کہ عمربدر کے اِن انکشافات کے بعد اَب یہ بہت ضروری ہوتاجاتاہے کہ آنے والے دنوں میں ماحولیاتی تبدیلیوںکے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے بچاو کے لئے دنیا اور بالخصوص پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو اپنی حفاظت کے لئے ترجیحی بنیادوں کو اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ آئندہ موجودہ سیلاب کی طرح ہونے والی ہولناک تباہ کاریوں سے محفوظ رہاجاسکے۔
بہرحال !آج اِس حقیقت سے کسی کے لئے انکار کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوگیاہے کہ پاکستان پر طرف پانی ،پانی اور پانی ،تباہی تباہی بس تباہی اور موت ، موت اور بس موت ہی منڈلارہی ہے اور اِن حالات میں قوم اپنی تاریخ کی سیلابی تباہ کاریوں سے نمبردآزماہونے میں بری طرح سے ناکام اور نامراد ہوچکی ہے ایسے میں قوم کو متحد اور منظم ہوکر اِس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ قوم سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا ازالہ کرکے ایک بار پھر ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرسکے اور ملک میں ایک ایسی مثال قائم کردے کہ یہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل ِ راہ ثابت ہو۔
اِسی طرح گزشتہ دنوںایک انٹرویو کے دوران پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے کے ترجمان مریسیوجولیانو نے بلاجھجک اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے حالات آئے روز بدترین ہوتے جارہے ہیں اور اِس سیلاب سے جہاں متاثرہ افراد کی تعداد ڈیڑہ سے دوکروڑکے قریب ہے تووہیں اتنی بڑی تعداد میں متاثرہ افراد نے دنیا کے ایک سب سے بڑے انسانی المیے کو بھی جنم دے دیاہے تو اقوام متحدہ کو بھی ایک بڑے امتحان سے دوچارکردیاہے اور اُنہوں نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کودنیاکا ایک بڑابحران قرار دیتے ہوئے یہ بھی تسلیم کرلیاہے کہ پاکستان میں آنے والا یہ بحران ہیٹی اور جنوبی ایشیامیں 2005 میں آنے والے زلزلوں اور2004میںآنے والے سونامی سے بھی بہت بڑابحران ہے اور شائد کوئی بھی ذی شعور اِس بات سے بھی انکار نہ کرسکے کہ اِس بحران سے پاکستان میں زراعت کو ایک ارب سے دوارب ڈالر کا نقصان ہواہے اور میرایہ خیال ہے کہ اِس حقیقت کو بھی دنیا کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ہم پاکستان میں آنے والے اِس تباہ کن سیلاب کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیں تو ایک خبر کے مطابق انسانی ہلاکتوں اور نقصانا ت کے حساب سے پاکستان میں آنے والا یہ سیلاب دنیا کا 60واں بتاہ کن سیلاب ہے جس سے اَب تک بے شمار انسانی ہلاکتیں عمل میں آچکی ہیں اور اربوں کھربوں کا نقصان بھی ہوچکاہے۔ اوراِس کے ساتھ ہی یہ بھی خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ اگر بارشوں کا سلسلہ نہ رکاتو اِن ہلاکتوں میں مزید اضافہ بھی ہوسکتاہے۔اِسی طرح پاکستان کو ہر برے وقت میں سود پر قرضہ فراہم کرنے والے دنیا کے بڑے سود خور ادارے آئی ایم ایف نے بھی پاکستان میں آنے والے اِس کی تاریخ کے اِس تباہ کن سیلاب پر خدشہ ظاہرکرتے ہوئے کہاہے کہ گزشتہ اسّی برس کے بعد پاکستان میں آنے والے اِس انتہائی تباہ کن سیلاب نے پاکستانی معیشت کو تباہ و بربادکردیاہے اگرچہ اِس منظر اور پس منظر میں اِس سودخود ادارے آئی ایم ایف نے بھی دنیاسے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کے اِن تباہ کن حالات میں اِس کی مددکرے۔
تو دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہاہے کہ مجھے پاکستان کے شدید سیلاب پر بڑی تشویش ہے اور میںپاکستان کے متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے بین الاقوامی برادری اور ڈونر ممالک اور امداد دینے والے اداروں سے بھی اپیل کرتاہوں کہ اِس مشکل وقت میں ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے دل کھول کر حصہ لیں۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج دنیا پاکستان میں آنے والے اپنی تاریخ کے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی فوری مددکے لئے بے چین ہے تواِس منظر اور پس منظر میں مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ وہیںیہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حکومتی اراکین اور وزرا سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر بیان بازی اور الزام تراشی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں جس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ جب متاثرہ صوبوں کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے وفاق سے امداد کی مد میںجیسے وزیراعلی ٰپنجاب کی جانب سے جب متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے 25ارب روپے کی رقم کی وصولی کا مطالبہ کیاگیاہے تو برسرِاقتدار جماعت کے ذمہ داران نے اِسے سیاسی رنگ دے کرایک نیاسیاسی مسلہ کھڑاکردیاہے ایک خبر کے مطابق لاہور میں جھنگ کے علاقے میں متاثرین سیلاب سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہاہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سیلاب زدگان کی عملی امداد کے بجائے وفاق سے بھاری امداد مانگ رہے اِنہیں یہ ہرصورت میں بتاناہوگا کہ478ارب روپے کا صوبائی بجٹ کہاں گیا….؟؟شہباز شریف کو 25ارب مانگے سے قبل بجٹ کی رقم کا حساب دنیاہوگا ۔اِس موقع پر ایک میں ہی کیا بلکہ سارا پاکستان ہی یہ سمجھتا ہے کہ حکومتی اراکین کی جانب سیلاب زدگان کی مددکرنے کے بجائے اپوزیشن اراکین کی جانب سے آنے والی تنقیدوں اوروزیر اعلی ٰپنجاب کی جانب سے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے رقم کے مطالبے پر بیان بازی کا سلسلہ جاری نہیں رکھناچاہے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہے کہ جس سے حکومتی اراکین کو بعد میں کسی اپنے بے تکے اور غیر سیاسی رویوں کی وجہ سے سُبکی کا سامنا کرناپڑے۔اور جب عوام اِن کے اِس بے حس روئے پر اِن پر تنقید کریں تو یہ بغلیں جھانکتے نظرآئیں اور عوام کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پر بھی حکومتی اراکین لعن طعن کرتے پھریں جس سے بعد میں اِن کے لئے خود مشکلات جنم لیں اور یہ عوام میں اپنی صفائی کے لئے جابھی نہ سکیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اِن حالات میں تو ضرورت صرف اِس آمر کی ہے کہ حکومتی اراکین اور وزراکسی بھی معاملے کو اپنی انا اور ناک کا مسلہ بنانے اور سمجھنے کے بجائے خالصتاَ جذبہ حب الوطنی کے تحت تمام جماعتوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کرچلیں کیونکہ ایساکرنے میں اِن ہی کی بھلائی اور اِن کا ہی سیاسی فائدہ ہے ۔ویسے بھی بقول بابراعوان کے صدر زرداری حالیہ بیرونِ ملک دوروں کے دوران متاثرین سیلاب کے لئے امداد کی مد میں بہت کچھ مانگ کر لارہے ہیںتو کیاہے اچھا ہو کہ یہ ساری رقم ملک کی تمام جماعتیں مل کر متاثرین سیلاب پر خرچ کریں اور اِس کا ساراکاساراکریڈٹ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہی لے جائے۔ورنہ حکمران جماعت یہ بھی یاد رکھے اگر اِس نے اپنے اِس اچھے عمل میں حزب اختلاف اور اپنے سے ناراض لوگوں کو ساتھ نہ ملایا تو اِن کی جانب سے کئے جانے والے منفی پروپیگنڈوں سے بھی حکمران جماعت کا سارااچھا عمل خاک میں مل کرصفر بھی ہوسکتاہے۔ (ختم شد)