پاکستانی میڈیا کا منفی کردار
تحریر: یاسر عمران مرزا
سن ننانوے سے مشرف دور کے بعد پاکستانی میڈیا نے خوب ترقی کی، حکومت نے مثبت پالیسی پر عمل پیرا ہو کر بہت سے نئے ٹیلی ویژن چینلز اور ریڈیو چینلز کے لائسنس جاری کیے۔ جس کے بعد پاکستانی میڈیا میں جدت آنے لگی اور پرائیوٹ چینلز کی طرف سے ٹاک شوز اور سیاسی بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے لگا۔ جس سے نہ صرف پرائیویٹ ٹی وی چینل کے ناظرین کی تعداد بڑھی بلکہ سچی خبروں اور تجزیوں کی پاکستانی عوام تک رسائی ممکن ہوئی۔ جب کہ اس سے قبل جب سرکاری ٹی وی چینل ہی تمام خبروں کا ذریعہ تھا ، تمام حکومتیں اپنی مرضی کی مثبت خبریں عوام تک پہنچنے دیتی تھیں جب کہ منفی خبروں کو دبا دیا جاتا تھا۔ اور عوام رات 9 بجے کی خبریں سن کر سمجھتے تھے ملک میں سب اچھا ہے۔ ہر طرف امن وامان اور سکھ چین کا دور دورہ ہے حالانکہ اس وقت بھی ملک کا حال کچھ ایسا ہی تھا، کرپشن ، چوری چکاری، ڈاکے، قتل و غارت اور سیاستدانوں کی ناجائز لوٹ مار سب چلتا تھا۔
بات ہو رہی تھی ٹاک شوز کی، ان ٹاک شوز سے نہ صرف صحافی حضرات نے نام اور شہرت کمائی بلکہ سیاست دانوں اور ٹی وی چینل کے مالکان کو بھی بہت فائدہ ہوا۔ پھر یوں ہوا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے ٹاک شوز میں اپنی نمائندگی کرنے کے لیے اچھا بولنے والے افراد کی ضرورت محسوس ہونے لگی، کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنی حمایت میں بولنے اور مخالف سیاسی جماعت کے ممبران کو زچ کرنے کے لیے صحافی حضرات اور ٹاک شوز کے میزبانوں کو مال پانی کھلانا شروع کر دیا۔ یوں پاکستانی میڈیا میں منفی رپورٹنگ کا رحجان وجود میں آیا، جس کی وجہ سے متعدد مرتبہ ٹاک شوز کے دوران تلخ کلامی اور گالی گلوچ کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ ایسا کرنے والوں میں پی پی پی کی فردوس عاشق اعوان، جنرل مشرف کے ترجمان راشد قریشی، ایم کیو ایم کے مصطفی کمال اور اے این پی کے بشیر بلور نے کافی شہرت حاصل کی۔
موجودہ حالات میں پاکستان کا ایک مخصوص میڈیا منفی رپورٹنگ کر کے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو نہ صرف بلیک میل کر رہا ہے بلکہ اپنی ناظرین کی تعداد میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ چونکہ لوگ چٹ پٹی اور گرما گرم خبروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں اس لیے میڈیا کا یہ کام خوب پھل پھول رہا ہے۔ نہ صرف سیاست دان بلکہ بڑے بڑے جاگیردار، سرکاری افسران اور حتی کہ حکومت بذات خود میڈیا سے دبی دبی نظر آتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتوں نے منفی دور اندیشی سے کام لیتے ہوے اپنے اپنے ٹاک شو میزبان مستقل طور پر خرید لیے ہیں، ان میزبانوں کو بڑی تعداد میں فنڈ اور ایک ٹیم مہیا کی جاتی ہے، یہ میزبان حضرات دن بھر مٹر گشت کرتے ہیں تا کہ رات کو آنے والے پروگرام کے لیے گرما گرم ہاٹ سٹوری تیار کی جا سکے۔ اور ان کا کام مستقل طور پر سوائے اپنی جماعت کے دیگر تمام جماعتوں پر کیچڑ اچھالنا اور منفی رپورٹنگ کرنا ہے۔ ان لوگوں کا طریقہ کار یوں ہے کہ جس جماعت کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنا ہے ان کی طرف سے بھی ایک بندہ بلا لیں گے اور اس سے سوالات کریں گے لیکن اس کو بولنے کے لیے موقع نہیں دیں گے، بار بار اسکے جواب دینے کے دوران زچ کرنے کی غرض سے ایک ہی سوال بار بار دہرائیں گے، جب بھی وہ جواب مکمل کرنے کے قریب ہو گا اس سے کوئی دوسرا سوال کر دیں گے یوں وہ بندہ زچ ہو کر تلخ کلامی کرے گا اور جو جواب اسے دینا ہے وہ بھی بھول جائے گا۔ اگر آپ آج کل کے ٹاک شوز دیکھیں تو آپکو متعدد بار ایسا ہوتا نظر آئے گا۔ اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر پاکستانیوں کا ایک گروپ (Let’s Expose The Negative Role Of The Free Media Of Pakistan) کے نام سے مسلسل بہت اچھا کام کر رہا ہے ،یہ لوگ بنا تعصب تمام پاکستانی میڈیا میں ہونے والی منفی رپورٹنگ کو عوام کے سامنے لا رہے ہیں۔
حال ہی میں انٹرنیٹ پر ایک ایسی ویڈیو کلپ پیش کی گئی جس میں ممتاز پاکستانی نجی چینل پر ایک صحافی اور سیاسی پروگرام کے میزبان اپنی رپورٹ میں تحریک انصاف پاکستان کا ایک کیمپ دکھاتے ہیں جہاں فقط ایک عدد خیمہ نصب کی گیا ہے اور وہاں کوئی بھی قیام پذیر نہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور مقام پر ایک متاثرہ خاتون سے سوال کرتے ہیں کہ کیا انہیں تحریک انصاف کی طرف سے غذائی اجناس یا دیگر امدادی سامان مہیا کیا گیا تو وہ خاتون جواب دیتی ہے کہ اسے کسی نے کچھ مہیا نہیں کیا گیا۔
اس ویڈیو کلپ میں موجود صحافی میزبان صاحب کی غلط بیانی کا جواب دینے اور ان کی حقائق پوشیدہ رکھنے کی کوشش کے جواب میں ایک جوابی ویڈیو کلپ پیش کیا گیا۔ جس میں یہ بتایا گیا کہ ان صاحب نے جو جگہیں پیش کیں وہ دراصل ایک بس سٹاپ تھا اور اس پر تحریک انصاف کا فقط بینر نصب کیا گیا تھا تا کہ لوگ متوجہ ہو سکیں اور اصل کیمپ جو اس مقام تک پہنچنے سے کچھ پیچھے اسی رستے میں واقع ہے کو میزبان صاحب نے جان بوجھ کر رپورٹ میں شامل نہیں کیا۔ جہاں تحریک انصاف کی طرف سے ایک بڑا کچن، میڈیکل سٹور اور دو بستر کا چھوٹا کس ہسپتال تک قائم ہے۔
صحافت میں ایسی بددیانتی کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر تلاش کرنے بیٹھ جائیں تو آپ کو ایسی بہت سی ویڈیوز مل جائیں گی جن میں اپنے سیاسی مخالفین پر کیچڑ تو اچھالا گیا ہے جب کہ چند زرخرید صحافی حضرات کی بددیانتی کو بے نقاب نہیں کیا گیا۔ اس لیے آئندہ جب بھی ایسی کوئی خبر دیکھیں، تو آنکھیں بند کر کے یقین کر لینے کی بجائے کسی دوسرے ذریعے سے اس کی تصدیق کر لیجیے۔ اور جو صاحب خبر بیان کر رہے ہوں ان کا ماضی ضرور ملاحظہ کر لیجیے۔ اﷲ تعالی ہم سب کو جھوٹ اور سچ میں فرق کرنے کے لیے عقل اور کلمہ حق کہنے کی ہمت و توفیق عطا کرے۔ آمین۔