"ادیان عالم کا مقصد انسانیت کی منزل آسان کرنا اور امن و سلامتی کا پیغام دینا ہے جبکہ افراد کو اشرف المخلوقات ہونے شرف بھی حاصل ہے مگر اس شرف کی لاج رکھنے والے نہ جانے کہاں گم ہیں؟ اگر ایک طرف مفلسی نے انسانیت کو ڈسا ہے تو دوسری طرف جہالت بھی اسکے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملائے چل رہی ہے، جبکہ معاملات کی وہ ذمہ داریاں جو رب کائنات نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہیں ، افراد کو کبھی کبھی غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ وہ لامحدود قوتوں کے مالک ہو گئے ہیں اور بہت سے کاموں کا ٹھیکا انہیں مل چکا”
تحریر: محمد الطاف گوہر
نئے سال کی آمد ایک نیا پیغام لیکر آئی ہے ، اس بات سے قطعہ نظر کہ یہ قمری سال ہے یا شمسی ، اک نئے تاریخ کا باب کھل چکا ہے۔ چند روز قبل اسلامی سال کی ابتدا ہوئی اور اب عیسوی ، دونوں کیلنڈر اب نئے اوراق کھول چکے۔ ہر روز افراد کی زندگی کا ایک نیا ورق پلٹتا ہے اور ایک تاریخی صفحہ معرض وجود میں آتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ افراد جنکو تاریخ دان اپنی تحریروں کا حصہ بناتے ہیں، قلم وہ سب کچھ سمیٹنا پسند کرتا ہے جو عالمی حدوں کو چھو تے ہوئے انسانیت کے اقدار کو بلندی کے آسمانوں پر لیجائے۔
پچھلی دہائی سے انسانی تہذیبوں کے ادغام ، ٹیکنالوجی کے طوفان اور جنگ و جدل نے عالم انسانیت کو بری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے، اللہ تعالیٰ کی زمین پر اسکے نائب نے وہ گل کھلائے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ اگر ایک طرف فاصلے سمٹ گئے اور دنیا ایک چھوٹے سے بچے کے آگے صرف ماس کی کلک کے فاصلے پر آگئی تو دوسری طرف دوریوں اور نفرتوں کے گل کھلے۔ روزمرہ کے انداز قدرتی زندگی سے خالی کسی کھوکھلی اور مصنوعی روش پر چل پڑے، اپنوں کو چھوڑ لاکھوں میل کی دوری پر روابط کی مصنوعی دلچسپی سے رشتوں کے اقدار مات کھانے لگے اور اپنے اجنبیوں سے زیادہ دوری پر چلے گئے۔جبکہ قدرتی زندگی اک خواب بن کر رہ گئی۔
عالمی قوتوں کا توازن بگڑ گیا اور مفادات کی جنگ نے اس آگ صورت اختیار کی جو بجھائے نہ بجھے۔ اقوام عالم کو معاشی ، اقتصادی اور بد امنی دھچکوں اور ہچکولوں نے ترسنا ک صورت حال سے دوچار کر دیا۔ مفاد پرستی کا دور دورہ رہا اور لوٹ مار کرنے والے بے خوف و خطر اپنی ڈگر پر خراماں خراماں چلتے رہے۔ سرد و گرم جنگ نے وہ روش اختیار کی جسکے اہداف صرف اور صرف عالم اسلام کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
ادیان عالم کا مقصد انسانیت کی منزل آسان کرنا اور امن و سلامتی کا پیغام دینا ہے جبکہ افراد کو اشرف المخلوقات ہونے شرف بھی حاصل ہے مگر اس شرف کی لاج رکھنے والے نہ جانے کہاں گم ہیں؟ اگر ایک طرف مفلسی نے انسانیت کو ڈسا ہے تو دوسری طرف جہالت بھی اسکے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملائے چل رہی ہے، جبکہ معاملات کی وہ ذمہ داریاں جو رب کائنات نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہیں ، افراد کو کبھی کبھی غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ وہ لامحدود قوتوں کے مالک ہو گئے ہیں اور بہت سے کاموں کا ٹھیکا انہیں مل چکا۔
دنیا کو ہر وہ چیز میسر ہے جو اسکے آرام اور ترقی میں ہمقدم ہو البتہ اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ انسانیت باہمی امن و چاشتی اور پیار ، محبت کا دامن تھام لے۔ نفرتوں اور دوریوں کے بادل اب چھٹ جانے چاہیں ، پیار اور محبت کا سورج طلوع چاہیے۔ آلامِ زندگی، آفات عالم اورروز مرہ کی ذمہ داریاں کم تو نہ تھیں جو مصائب سے دوچار رکھتیں ، اب
بھی اگر معاملات کو سلجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو نہ جانے کتنے دیے اور بجھ جائیں گے، اذیت ہو یا خوشی ، زندگی تو بسر ہو جائے گی مگر آنے والی نسلوں پر جو چھاپ پڑ رہی ہے اسکا بھی خیال ہونا چاہیے۔
ہر روز وہی سورج اور وہی دن مگر نئی امنگیں اور نئی تونائیاں اپنی مہربانیان نچھاور کرتی نظر آتی ہیں، نیا سال نئی امنگوں اور نئے پیغام کیساتھ ؛ نیا پیغام ، ڈائری کا پہلا صفحہ نئے عزم کے ساتھ کہ یہ برس انسانیت کے شانے بلند کرنے میں پیش پیش ہوگا۔ ہر ذی شے اپنے انجام کی طرف تیزی کے ساتھ سفر کر رہی ہے اور ہر آنے والا پل نئی امنگوں سے بھرپور ہے ، آج اگر ضرورت ہے تو صرف پیار ، امن اور دوسروں کے اقدار کا احترام کرنے کی ۔
میری طرف سے آپ سب کو نیا سال 2011 مبارک ہو