عینی نیازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کا لفظ ’’عودے‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی لو ٹنے کے ہیں اس سے مر اد خو شی کا وہ دن جو با ر بار لوٹ کر آئے لیکن ار ض پا کستا ن کی یہ بد قسمتی ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے ہم یہ دن تو منا تے ہیں لیکن وہ خوشی اور مسرت ہما رے دروازوں پہ دستک نہیں دیتی جس کا ذکر لفظ عید میں پنہا ں ہے ہر سال وطن عزیز ایک نئے بحران کا شکا ر نظر آتا ہے کبھی ہما ری قوم زلزلوں سے نبرد آزما ہو تی ہے تو کبھی ہم سیلا بوں کی تبا ہ کا ریوں سے نبٹ رہے ہوتے ہیں اورآج پورے پا کستا ن اور خا ص طور پر کراچی کے دہشت گردی اور ٹار گٹ کلنگ بے گنا ہ لو گوں کی سر کٹی لا شوں کے تحفہ وصول کر تی قوم ہر مشکل حالات کا مقابلہ کر نا اورجینا چا ہتی ہے رمضان کے مقدس مہینے میں جب کہ دشمن بھی اپنی جنگوں کوموخر کر دیتے ہیں شہرکراچی ٹار گٹ کلنگ کا شکا ر رہا پا کستا نی قوم پورے ما ہ روزہ رکھ کر تراویح کی طویل نما زوں اور تلا وت کے بعد اللہ سے اپنے ملک میں امن کے لیے دعا گور ہے ۔
ادھر شہر امن میں رمضا ن المبا رک کے آ خری عشرے کے فیو ض و بر کا ت سمیٹنے کے لیے دنیا بھر کے مسلما ن حرم کعبہ میں جمع ہو ئے اس سال بھی تقر یبا ٰ۳۰ لا کھ سے زائد مسلما نو ں نے حرم کعبہ کو اپنا مسکن بنا نے کا اعزاز حا صل کیا آخری طا ق راتوں کی عبادت،جمعتہ الود اع کے خطبے اور بعد ازاں لیلتہ القدر کی خصو صی دعا ؤں میں پاکستا ن کے لیے کئی مر تبہ دعا ئیں کی گئی بحثیت مسلما ن ہما را یہ را سخ عقیدہ ہے کہ حرم پا ک میں کی جا نے وا لی دعائیں کبھی رد نہیں کی جا تیں ۔دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہو ئے زا ئرین یہ دریا فت کرنے کی کو ششوں میں مصروف رہے کہ آخر پا کستا ن سے کو ن سی خطا ہو ئی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا قہر اس کے رہنے وا لوں پر نا زل ہو رہا ہے کئی لو گوں نے پا کستا ن کے لیڈرو ں اور اربا ب اختیارکے کر دار اور ما ضی کے با رے میں بھی استفار کیا یہ لو گ خلو ص نیت سے پا کستا ن کے بہتر مستقبل کے لیے دعا گو تھے کہتے ہیں کہ دعا وں سے بلا ئیں ٹلتی ہیں ،انسان اپنے اعما ل کی عبرت سے بچ سکتا ہے مگر ہما ری دعا ئیں غریبو ں کی آہ اور فر یا د بن کر سا تو یں آسمان سے وا پس آجا تی ہیں حرم کعبہ میں دنیا بھر کے مسلما ن زا ئر ین پا کستا ن کے لیے فکر مند اور غمزدہ نظر آئے پاکستان کی وا حد ایٹمی ا سلامی ریا ست ہو نا تما م مسلم اقوام عالم کے لیے قا بل فخرہے زا ئرین میں ا یک ا دھیڑ عمر افر یقی مسلمان نے فر ما یا کہ پا کستا نیو ں کو چا ہیے کہ وہ اپنے اعما ل پر تو جہ دیں ۔ مجھے اس افریقی مسلما ن کی را ئے سے سو فی صد اتفاق ہے کہ آج پا کستا ن میں اپر کلاس سے لے کر نچلے طبقے تک سب ہی جلد از جلد دولت کما نے کی دوڑ میں مصروف ہیں اس کے لیے وہ کو ئی بھی اخلا قی حد پھلا نگنے کو تیا رہیں پاکستا ن میں ر مضان کے مہینے میں کیا کیا قیا متیں ٹو ٹی ، مملکت خدادادمیں سو ختہ جا نوں پر کیا گزری کہ ا صل گنا ہ گا ریہ سو ختہ جا ن نہیں بلکہ دشمن جا ن تو اربا ب اختیار ہیں جو کبھی پاکستا ن اور اسکے رہنے والے با سیوں کے لیے کو ئی درد مند دل
پا کستا نی قوم ا اس با ر عید پرجس کسمپرسی کا شکا ر ہے اس کی مثا ل قیام پاکستان کی پہلی عید پر بھی نہیں ملتی جب کہ آج ہم اس وقت سے کہیں زیا دہ بہتر ذرائع رکھتے ہیں مگر ہم ایما ن داری، دیا نت داری عزم وحوصلہ اورایک متحد قوم بن کر رہنے کے عزم سے خالی ہوگئے ہیں جب ہی ہما ری دعا ئیں بھی عرش الہٰٰی سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں جب تک ہم اپنے اعما ل و کردار کو بہتر نہیں کر یں گے پور ی دنیا کی دعا ئیں بھی ہمارے لیے چشم رحمت نہیں بن سکتی ۔ اس وقت ایک صدی قبل علا مہ صا حب کی لکھی گئی نظم پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہما رے دور کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی ہو ۔
یہ شالا مار میں اک بر گ زرد کہتا ہے
گیا وہ مو سم گل جس کا راز دار ہوں میں
خزاں میں مجھ کو رلا تی ہے یا د فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیو نکر کہ سو گوار ہوں میں
اجا ڑ ہو گئے عید کہن کے مے خانے
گز شتہ بادہ پرستوں کی یاد گا ر ہو ں میں
پیا م عیش و مسرت ہمیں سنا تا ہے
ہلا ل عید ہما ری ہنسی اڑاتا ہے ۔