عینی نیازی
کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ سچ اور سولی کے درمیاں گہرا رشتہ صدیوں سے چلا آرہا ہے اس کے اجزا ئے تر کیبی میں زہر کا پیالہ ، لکڑی کی سلیب اور پھا نسی گھا ٹ وہ حقیقتیں ہیں جو تا ریخ کے ہر دور میں ان لو گوں کا مقدر بنتی ہیں جنھوں نے حق کا دامن مضبو طی سے تھا مے رکھا بنا ءکسی لا لچ و خود غر ضی اور ذا تی مفا د کے دنیاکو خو بصو رت اور امن کا گہوارہ بنا نے کے خواب دیکھے تو اسیے لو گو ں کو غد ار ،جنو نی اور پا گل قرار دیا گیاان کا قصور تھاکہ انھوں نے حق کا دامن نہ چھوڑا پا کستا ن کی ۲۶ سا لہ سیا سی تاریخ میں ذولفقار علی بھٹو وا حدسیا سی لیڈر ہیں جنھوں نے حق با ت کی خاطر سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینا پسند کیا اور عوام کے دلوں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے
۵ جنور۸۲ ۹۱ءکو لا ڑ کانہ میں انھوں نے ایسے گھرانے میںآنکھ کھو لی جہا ں غربت و آلام کا پر ندہ پر نہیں ما ر سکتا تھا دو لت کی ریل پیل اعلیٰ تعلیم وتربیت اور بہتر ین معیارزندگی وروشن مستقبل کے ساتھ زندگی بسر کر تے تو ایک لمبی عمر پا تے لیکن انھوں نے اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اپنے آس پا س پھیلی غربت ، نا انصا فی ، جہا لت ،دکھ اور بیما ری کی دیواریں دیکھی تو وہ ان دو انتہا وں کے فرق کو بر داشت نہ کر پا ئے انھو ں نے عوام کے مسائل حل کر نے کے لیے سیا ست کے خار زار پر قدم رکھا۔
پاکستا ن کی تا ریخ میں جس جمہوری سیا سی لیڈر کو سب سے زیا دہ شہرت، عزت اورپذ یرائی حا صل ہو ئی وہ بلا شبہ سا بق وزیر اعظم ذولفقا ر علی بھٹوتھے انھوں نے اپنی تقریروں میں عوام کو سنہرے مستقبل کی نو ید سنا ئی دیتی تھی وہ پا کستان کے کو نے کونے تک سر حد، بلو چستا ن ، پنجا ب اور سند ھ کے دورافتا دہ علا قو ں تک گئے جہاںکوئی سیا ست داں آج بھی نہ پہنچ سکا ہے عوام کی وارفتگی اور انکی محبو بیت نے ذوالفقار علی بھٹو کو خو اص کے دل فریب حصارکے بجا ئے عوام کی محبتوں کے حصا ر میں محفو ظ کر دیا انھو ں نے غریب عوام کو خواب دکھا یا کہ انکے بچے بھی اسکو لوں اور یورنیورسٹیوں میں اعلی ٰ تعلیم حا صل کر سکتے ہیں ان کا بھی حق ہے کہ علا ج کے لیے بہتر سہولتیں انھیں دستیا ب ہو ان کے تن پر اچھے کپڑے ہوں ان کے ارد گرد پھیلی بے بسی خو شحالی بن کر ابھرے بقول منیر نیا زی کہ” اک ایسی زندگی جو اس قدر مشکل نہ ہو ِ“ ذوالفقار علی بھٹو کے مشہور زمانہ’ نعرہ روٹی ،کپڑااورمکا ن نے انھیں اقتدار کی مسند پر بھٹا یا،پاکستا ن کی غریب عوام نے انھیں اپنا نجا ت دہندہ جا نا۔
مگر بد قسمتی سے بھٹو کے اقتدار میں زیادہ عر صہ نہ رہ پا ئے اور ۵ جو لائی ۷۷۹۱ءکو ایک فوجی آمر جنرل ضیا ءالحق نے عوام کی حکو مت پر شب خون ما را اور ذوالفقار علی بھٹو کو پا بند سلا سل کر دیا ڈکٹیٹر کو زندہ بھٹو ان کی آمرانہ خوا ہش کے ا ٓگے دیوار محسوس ہوا اور اس نے یہ دیوار گرانے کا فی صلہ کر لیاان پر جھوٹا مقدمہ چلا یا گیا اورعدالت نے حکومتی خو اہشا ت کے عین مطا بق فیصلہ دے دیا ۔پنجاب کے راولپنڈی جیل میں۴ اپریل ۹۷۹۱ءکی درمیا نی شب جس کی نحو ست سے پا کستا نی سیا ست آج تک نہیں نکل پا ئی جب نمود سحر سے قبل جنا ب ذالفقار علی بھٹو کو پھا نسی دی گئی جب ان کی عمر محض اکیا ون بر س تھی راو یا ن بتا تے ہیں کہ بھٹو نے اپنی کا ل کو ٹھری سے پھا نسی گھا ٹ تک کا سفر ا نتہا ئی سکون اور بر داشت سے طے کیا ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ مضروب تھے ا نھیں ضربا ت اور جسما نی ا ذیتیں دی گیں تھیں یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ وہ اپنے قول کہ” میں فوج اور ضیا ءکے ہا تھوں مر نے کو تا ریخ میں مر نے کو تر جیح دوں گا “۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پس زنداں میں لکھا تھا کہ ”مفاد پرستوں کا ٹولہ مجھے اس لیے نا پسند کر تا ہے کہ میں پہلا اور واحد رہنما ہو ں جس نے ان کی اجا رہ داری کا آہنی حصار توڑا ہے اور میرا عوام سے براہ راست رابطہ ہے وہ چا ہتے تھے کہ میں ان کی تقلید کروں میں نے انکا ر کر دیا “ ذو لفقار علی بھٹو اس دور حکو مت میں ہم سب کو اس لیے بھی زیا دہ یا د آتے ہیں کہ ان کے ہاتھو ں جس پیپلز پارٹی کی بنیا د رکھی گئی وہ آج پا کستا ن میںبرسر اقتدار ہے بھٹو سے زندگی نے وفا نہ کی مگر ان کے لگا ئے ہو ئے پودے کی آبیاری کرنے والی مو جودہ حکو مت نے انکے نعر ے رو ٹی کپڑا اور مکان کو الیکشن میں خوب استمعال کیا بر سر اقتدار ہونے کے بعد نعرہ ہی رہا غریب عوام، غریب ہی رہے جو کھلے آسما ن تلے رہتا تھا اس کا سر اسی طر ح بے سایہ ہی رہا جس کو تن پر کپڑا میسر نہ تھا وہ بد ستور ننگا ہی رہا جو بھو کے پیٹ سونے پر مجبور تھا وہ اسی طرح سونے پر مجبور رہا ہاں! البتہ بھٹو صاحب کے جا نے کے بعد انکے نعرے نے ان کی پا ر ٹی کے سیاست دانو ںپر کامیا بی کے دروازے کھو ل دیے انھیں عوام کی د کھتی رگ پر ہا تھ رکھنے کا فن آگیا سو بھٹو صا حب کے بعد جو بھی سیاست داں آیااس نے عوام کو’ ووٹ دو خواب لو ‘ کے مصادق خوب استمعال کیا مگررو ٹی کپڑا ورمکا ن ہر دور کی طرح آج بھی عوام کی پہنچ سے دورہے آج بھی عوام ز ندگی کی بنیادی سہو لتوں سے محروم ہیں ا پیپلز پا ر ٹی الیکٹ ہو نے کے بعد حسب دستور کر پشن لوٹ کھسوٹ ، اقربا ءپروری اور بے قاعدگی کی ایسی شا ندار مثا لیں قا ئم کی کہ عقل دنگ ہے پیپلز پا ر ٹی ہر وہ کا م کر گزرناچا ہتی ہے جس سے عوام میں اسکے خلا ف نفرت اور اشتعال بڑ ھتا جا ئے اس کی درجنوں مثالیں اس کے تین سالہ دور حکومت میںمنظر عام پر آتی رہی ہیںپیپلزپا رٹی کی حکومت برسر اقتدار آنے سے ہمیں کو ئی آئیڈل حکومت کی توقع نہ تھی لیکن اتنی امید ضرور تھی کہ ایک جمہوری پارٹی ہو نے کے نا طے اسے عوام کے دکھ درد کا کچھ تو اندازہ ہو گا مگر آج حکو مت کے اس تین سالہ دور حکو مت میں مہنگا ئی میں تیس سے پینتیس فی صد ریکا ر ڈاضافہ ہو اہے بجلی گیس اور دیگر چیزوں میں ہر چند مہینے بعد نئے اضافے منی بجٹ کی صور ت میں عوام پر نازل ہوتے رہے ہیں عوامی مسائل میں نا قابل حد تک اضافہ ہو چکا ہے اس وقت تما م پاکستانی قوم کے دل میں ایک ہی سوال ہے کہ کو ئی ہے جو حکومت سمیت تما م سیا سی جما عتوں سے پو چھ سکے حکومت ا س اضافے سے کتنا کما رہی ہے ان سب کے مفا دات کبھی ختم بھی ہوں گیں ؟کیاکبھی ا ن کا پیٹ اور نیت سیر بھی ہو گی یا یو ں ہی عوام کی کھا ل کھینچتے رہیں گیں ؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر حکو مت کے یہی کر توت جاری رہے تو وہ دن دور نہیں جب صدر مشرف جیسے غا صب آمر لوگوں کے ہیرو کہلا ئیں گیں اوربھٹو نے وہ خواب جو رو ٹی کپڑا اور مکا ن کی صورت میں عوام کو دکھا یا تھا اب صرف خواب بن کر رہ جائے گا۔ ۔