تشدد دیکھنے سے بھی جارحیت پسندی بڑھتی ہے، فرانسیسی ماہرین
ویڈیو گیمز انسانی دماغ کو فوری فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ فرانسیسی ماہرین کوتےہیں کہ اگر کوئی نو عمر انسان تشدد آمیز گیمز کھیلے اور ایسے مناظر ٹی وی اسکرین پر دیکھے، تو ذہن جارحیت پسندانہ انداز میں کام کرنے لگتا ہے۔
ٹی وی اور فلمیں دیکھنا یا ویڈیوگیمز کھیلنا، یہ ایسے مشاغل ہیں، جو خاص طور پر آج کل کے بچوں اور نوعمروں میں انتہائی مقبول ہیں۔ پہلے تو والدین صرف یہی شکایت کرتے تھے کہ بچے ان سرگرمیوں میں حصہ لے کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے مختلف کمپنیاں تشدد آمیز ویڈیو گیمز زیادہ بنا رہی ہیں اورساتھ ساتھ ٹی وی اور فلموں میں بھی تشدد کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اس کے بعد اس معاملے نے ایک بحث کا رخ اختیارکر لیا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ایسی گیمز پر پابندی لگانے کی باتیں شروع ہوگئیں۔ محققین ان مناظرکے ن
اپختہ ذہنوں پر پڑنے والے اثرات معلوم کرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ ایک بات پر تمام محققین متفق ہیں کہ یہ مناظر خاص طور پر بچوں اور نوعمر افراد کے ذہنوں کو جارحیت پسندی کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کا دماغ پہلے ہی سے تشدد کو پسند کرتا ہو۔
پرتشدد ویڈیو گیمز، ٹی وی پر غیر اخلاقی مناظر اور تشدد آمیز فلمیں، ان سبھی عوامل سے نوجوانوں میں جارحیت پسندانہ رویہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ فرانس میں کرائی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اسکرین پر تشدد دیکھنے سے نوجوانوں کے ذہنوں پر بہیمانہ اور وحشیانہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ محققین کے مطابق ذہن کا وہ حصہ، جو جذبات اور ردعمل کو کنٹرول کرتا ہے، وہ اس طرح کے مناظر اور نام نہاد کھیلوں سے منفی انداز میں متاثر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ نوعمری کے دور میں ذہن کے اس حصے میں تیزی سے تبدیلی ہو رہی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اُس وقت خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مناظر ذہنی حالت پرکس طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں اورکس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
جورڈن گرافمین اعصابی خلل سے متعلق ایک امریکی طبی تحقیقی ادارے سے منسلک ہیں۔ انہوں نے چودہ سے سترہ سال تک کی عمروں والے بائیس نوجوانوں کوکم دورانیے کے پر تشدد مناظر دکھائے۔ ساٹھ مختلف ویڈیو گیمز اور فلموں سے منتخب کئے گئے ان مناظر کو تشدد کے حوالے سے مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لیکن اُنہیں دکھاتے وقت اُن کی ترتیب کا کوئی دھیان نہیں رکھا گیا تھا۔ اس دوران اِن نو عمر افراد کی ذہنی حالت کا تجزیہ کرنے اور ان مناظرکے اثرات ریکارڈ کرنے کے لئے اُن کے جسموں سے مختلف آلات بھی لگائے گئے تھے۔ ان کی انگلیوں پر بھی سینسر لگائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جسم کے مختلف حصوں کی حرکت نوٹ کرنے کے لئے بھی مختلف طرح کے آلات کو اُن کے جسموں سے جوڑا گیا تھا۔ ان سب کا مقصد ذہن کے ساتھ ساتھ جذباتی ردعمل کا اندازہ لگانا بھی تھا۔
محققین کے مطابق تشدد سے بھرپور ویڈیوز دیکھنے سے نوجوانوں کے ذہنوں میں جذبات کو کنٹرول کرنے والے حصے کا ردعمل کم ہوجاتا ہے۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ جب جذبات کم ہوں گے، توجارحیت پسندی اور تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گرافمین نے بتایا اس دوران ان نوعمروں کے ذہنوں کے انہی حصوں میں حرکت بھی دیکھی گئی، جو صرف غصے کی حالت میں کام کرتے ہیں۔
ان کے بقول اگر روزانہ اس طرح کے مناظر دیکھے جائیں، تو پھر یہ ذہنی کیفیت معمول کے رویے میں تبدیل ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو انسان ہر وقت غصے کی حالت میں ہو گا اور یہ صورتحال سوچنے سمجھنے کی عمومی صلاحیت اور احساس کو کم کر دیتی ہے۔ نتیجتاً ایسے نو عمر انسان جارحیت پسند ہو جاتے ہیں اورکوئی چھوٹی سے بات بھی ایک بڑے سانحے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
فرانس میں کی جانے والی اس تحقیق میں صرف لڑکوں کو شامل کیا گیا تھا۔ لڑکیوں پراس طرح کی گیمز، ٹی وی ڈرامے اور فلمیں کیا اثر چھوڑتی ہیں، اس بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم اس حوالے سے اب تک کئے گئے مطالعوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نوعمرلڑکیاں پر تشدد مناظر دیکھنے کے بعد لڑکوں کے مقابلے میں کم جارحیت پسندانہ انداز میں اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی