تحریر۔ قمرالزماں خاں
بتیس سال پہلے تین اور چار اپریل 1979ء کی منحوس رات کے آخری پہراس دیپ کو بجادیا گیا جس نے پاکستان کے کچلے طبقات کواپنے حقوق کے لئے لڑنے کی راہ دکھائی تھی۔ایسا کرتے ہوئے ملک کے بدترین آمر جنرل ضیاءالحق نے یہ فرض کرلیا تھا کہ چئیرمین بھٹو کے جسمانی قتل کے بعداستحصال کے خلاف لڑائی ،طبقاتی جدوجہداور حریت پسندی بھی قتل ہوجائے گی، مگر بھٹو چونکہ کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ اور نظریے کا نام تھا اس لئے ضیاءالحق اپنی تمام تر بربریت،قتل و غارت گری اور مظالم کے باجود بھٹو ازم کو قتل نہ کرسکا۔ذوالفقار علی بھٹو کے پاس قتل گاہ میں اپنی جان بچانے کا راستہ موجود تھا،کہا گیا تھا کہ بھٹو ملک چھوڑ جائے اور سیاست سے کنارہ کشی کرجائے تو اسکے ناکردہ گناہ ، اسکے نتیجے میںقائم جعلی مقدمے اور اس سے بھی زیادہ بوگس عدالتی فیصلے کے ذریعے سنائی جانے والی موت کی سزا سے اس کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔پیغام رساںچئیرمین بھٹو کی پہلی اہلیہ محترمہ امیر بیگم تک پہنچے اور وہ غیر سیاسی خاتون اپنے خاوند کی جان بچانے کے لئے سرگرداں ہوئیں۔انہوں نے بہت اسرار اور دباﺅ سے بیگم نصرت بھٹو کو ”معافی نامے“کے کاغذات بھٹو صاحب تک پہنچانے پر مجبور کیا۔بھٹو نے ” معافی نامے“ کو دیکھا اور اسکو مسترد کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہاکہ” میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا“۔یہ ایک واضع چناﺅ تھا ۔موت کا راستہ چن لیا گیا تھا اور موت کے انتخاب سے اپنی پارٹی اور سیاسی لواحقین کو پیغام بھی دے دیا گیا تھا کہ جینا ہے تو لڑ کہ جﺅ ورنہ موت بہتر ہے۔اسی راستے کا انتخاب بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس وقت کیا جب موت یقینی طورپر ان کا تعاقب کررہی تھی۔
آج بھٹو کی شہادت کے بتیس سال بعد بھٹو کی پارٹی جس راہ پر چل رہی ہے یہ راہ تو بھٹو کے بدترین دشمنوں نے بھی پیپلز پارٹی کے لئے منتخب نہ کی تھی۔آج بھٹو کی پارٹی پر بھٹو کے قاتلوں اور انکے سیاسی بالکوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔موجودہ حکومت پر فائز ضیاءالحق کی مجلس شوری کے اراکین بھٹو کے نام کی بھیک میں ملنے والے اقتدار پر فائز بھی ہیں اور بھٹو کو گالیاں بھی دے رہے ہیں۔وہ بھٹو کے عظیم کارناموں اور اقدامات کو
سنگین غلطی قرار دے کر بھٹو کے نظریات کی توہین کر رہے ہیں۔بھٹو کے تمام اقدامات کے برعکس سیاسی ،معاشی ،نظریاتی پالیساں اختیار کرتے ہوئے نہ کسی کو شرم محسو س ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ پوری پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ہو جیسے۔آج بھٹو کے مزار کی طرف رواں دواں لاکھوں کارکنوں کے قافلے عجب تضاد کا شکار ہیں ۔بھٹو کے نام کو جس بے ہودگی اور مجرمانہ انداز میں استعمال کیا جارہا ہے اس پر تاریخ ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔بھٹو جس نے پیپلز پارٹی بناتے ہوئے پارٹی کا تشخص ہی سامراج دشمن تشکیل دیا تھااسکی پارٹی کو امریکی سامراج کی باندی بنادیا گیا ہے۔جس سرمایہ داری سے ٹکرانے کے جرم میں بھٹو نے مردانہ وار موت کے پھندے کو قبول کرلیاتھا اس سرمایہ داری نظام کی ظلمت سے پارٹی اور پاکستان کو اندھیروں کی طرف گامزن کیا جارہا ہے۔ ظلم یہ ہورہا ہے کہ بھٹو کے نام پر نعرے لگانے اور سیاست چمکانے والے ”آقاﺅں “ نے پارٹی کے تمام ڈھانچوں میں پیپلز پارٹی کے بنیادی نظریات جن کو بھٹو ازم کہا جاتا ہے کا تذکرہ کرنا تک ممنوع قراردیا ہوا ہے۔آج پارٹی کی نچلی تہیں تو ویسے ہی پامال ہوچکی ہیں مگر بالائی ڈھانچوںمیںرکن بننے کی اہلیت کا پیمانہ سرمایہ داری نظام کی تابعداری اور سامراجی گماشتگی قرار پایا ہے۔کوئی سیاسی کارکن پارٹی کے کسی بھی درجے میں بھٹو شہید کے نظریات اور پارٹی کے تاسیسی نظریات کو رائج کرنے کی بات کرنے پر اپنی پوزیشن پر قائم نہیں رہ سکتا۔حیرانگی یہ ہے کہ پھر بھی بھٹو کا نام لے کر سیاست کی جارہی ہے۔
موجودہ پیپلز پارٹی اپنے دشمنوںکے راستے پر چل کر اگر کوئی کامیابی حاصل کرلیتی تو اس کے پاس اس کو اختیار کرنے کی کوئی دلیل بھی ہوتی مگر تمام تر غداریوں کا نتیجہ ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔بھٹو کے سیاسی وارث بن کر اقتدار پرقابض گروہ کا نامہ اعمال مہنگائی،بے روزگاری،جہالت،بیماریوں،بد امنی،لوڈ شیڈنگ، پسماندگی ،لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کے پھیلاﺅ کے کارناموں سے بھرا ہوا ہے۔یہ سب تو” بھٹو ازم“ کو درحقیقت قتل کرنے کے مترادف ہے۔آج ہر دوسرا ایس ۔ایم ۔ایس پارٹی قیادت اور اسکی پالیسوں کے ’ہجو‘پر مشتمل ہوتا ہے ۔شرمندگی اور خجالت کی بات یہ ہے کہ گناہ گار موجودہ حکمران اور پارٹی قیادت ہے مگر بدنام بھٹو اور اور اسکی پارٹی ہورہی ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کی قرارداد نمبر 4کے شروع میں لکھا تھا کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کے مقصد کو اگر ایک فقرے میں واضع کیا جائے تویہ ہے کہ پاکستانی سماج کی غیر طبقاتی معاشرے میں بدلنا جو کہ آج کے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے“۔مگر موجودہ قیادت اور پارٹی کے بالائی ڈھانچے سوشلزم کا نام سننے کے روادار نہیں اور دوسری طرف پاکستانی سماج کو تو یہ غیر طبقاتی معاشرے میں کیا ڈھالیں گے انہوں نے پارٹی کے تمام ڈھانچوں کو طبقاتی ہیئت دے کر صرف طبقہ بالاءسے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔یہ کروڑ پتی اور ارب پتی نہ تو پارٹی کے بنیادی اصولوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کو ایسی باتوں سے دلچسپی ہوسکتی ہے جن پر عمل درآمد سے ان کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کے راستے بند ہوتے ہوں۔
بھٹو کی بتیسویں برسی پر اسکی پارٹی درحقیقت لاوارث ہوچکی ہے۔اسکی سیاسی میراث قابضین کی من مانیوں اور بداعمالیوں کے ہاتھوں سسک رہی رہی ہے۔کارکنوں اور اور اس ملک کے کروڑوں محکوموں کے لئے موجودہ بے ثمر اقتدار شرمندگی کا باعث ہے۔بھٹو نے اپنی جان کی قربانی موجودہ حکمرانوں کے مذموم مقاصد کے لئے تو ہرگز نہیں دی تھی وہ تو اس ملک کو سرمایہ داری اور جاگیر داری سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔بھٹونے موت کی کوٹھری میں بھی سچ کہنے اور لکھنے سے گریز نہیں کیاتھا وہ اپنی سیاسی وصیت کے طور پر لکھی گئی تصنیف” اگر مجھے قتل کیا گیا؟“ میں لکھتے ہیں کہ”میں اس آزمائش(فوجی بغاوت) میں اس لئے مبتلا کیا گیا ہوں کیوںکہ میں نے اس ملک کے شکستہ ڈھانچے کو جوڑنے کے لئے متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی،مگر موجودہ فوجی بغاوت کا سبق ہے کہ متضاد مفادات کے حاملین کے مابین مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔یہاں ایک طبقاتی جنگ ناگزیر ہے جس میں ایک طبقہ فتح یاب ہوگا اور دوسرا برباد“۔یہ ہے بھٹو ازم ۔یہی بھٹو کے نظریات اور اسکی سیاسی وراثت ہے۔اگر بھٹو کے نام کو یونہی بدنام کرتے ہوئے اسکے ازم اورنظریاتی فلسفے کے الٹ چلنے کی روش جاری رہی تو پھر جو کام ضیاءالحق بھٹو کو جسمانی قتل کرنے کے باوجود نہ کرسکا اسکا ارتکاب بھٹو کے نام کے طفیل سیاست کرنے والے کرگزریں گے۔اس وقت پارٹی کے کارکنوں کا فریضہ ہے کہ وہ موجودہ پارٹی قیادت کے ہاتھوں بھٹو کو قتل ہونے سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔بھٹو کا وارث ایک خاندان نہیں بلکہ کروڑوں محکوم،محروم،غریب،کسان اور مزدور ہیں،جنکی نجات کی جنگ میں بھٹو نے اپنی جان قربان کی تھی ان پر لازم ہے کہ وہ بھٹو ازم کو قتل ہونے سے بچانے کے لئے آگے بڑھیں۔