انڈونیشیا میں ایڈز اور ایڈز کا سبب بننے والے ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا صرف 0.2 فیصد بنتی ہے،ایکن اس وائرس کے پھیلاؤ کے نئے مصدقہ واقعات کی تعداد میں تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔
جکارتہ کی رہنے والی لیانا پہلے ایک اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے ایک ادارے سے منسلک تھی لیکن بعد میں اس نے اپنے برے مالی حالات سے تنگ آ کر جسم فروشی شروع کر دی ۔ اس وقت اس خاتون کی عمر تیس برس ہے۔ لیانا کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کا قطعی اندازہ ہی نہیں تھا کہ کس طرح غیر محفوظ جنسی رابطے اس کو ایڈز کے مہلک مرض یا ایچ آئی وی وائرس کا شکار بنا سکتے ہیں۔ یہ خاتون اپنی اسی لاعلمی کے باعث پہلے ایچ آئی وی کا شکار ہوئی اور اب اسی وجہ سے ایڈز کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو چکی ہے۔
لیانا، جس نے اقتصادیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے، کا شمار ان تین لاکھ انڈونیشی باشندوں میں ہوتا ہے جو تقریباﹰ ایسے ہی یا ان سے ملتے جلتے حالات میں ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انڈونیشیا ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اور وہاں ایڈز کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہونے کے باعث اس مرض کے شکار افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مرض اور اس کے وائرس کے پھیلاؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انڈونیشی حکومت کی جانب سے اس موذی مرض سے بچاؤ کے لیے کوئی مؤثر مہم نہیں چلائی جا رہی۔
جسم فروشی ایک ایسا کاروبار ہے جو زیادہ تر غیر قانونی طور پر کیا جاتا ہے اور جس کے بارے میں عوامی سوچ اکثر بہت منفی ہوتی ہے۔ اس لیے انڈونیشیا جیسے ملک میں بھی اس شعبے میں کام کرنے والے شہریوں کو مناسب احتیاطی تدابیر استعمال کرنے کا قائل کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا میں ملکی آبادی کا 0.2 فیصد حصہ ایڈز یا ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہو چکا ہے ۔ تاہم جکارتہ حکومت اور صحت کے شعبے کے ماہرین اس بارے میں اس لیے بہت متفکر ہیں کیونکہ سن 2005 اور سن 2010 کے درمیانی عرصے میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے نئے مصدقہ واقعات کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو کر 4158 ہو گئی تھی۔ اس مرض اور وائرس کا یہی تیز رفتار پھیلاؤ ابھی تک جاری ہے۔
لیانا کہتی ہےکہ جب اس نے جسم فروشی کا کام شروع کیا تو اسے اس بیماری کے بارے کوئی خاص علم نہیں تھا اور نہ ہی اسے یہ علم تھا کہ محفوظ جنسی رابطوں کے لیے کس طرح کے ذرائع استعمال کرنے چاہیئں کہ وہ ایچ آئی وی وائرس سے بچ سکتی۔
لیانا نے جسم فروشی کا کام سن 2007 میں اپنے شوہر کے انتقال کے بعد شروع کیا تھا کیونکہ اس انڈونیشی خاتون کو اپنی اور اپنی بیٹی کی کفالت کرنا تھی۔ جسم فروشی سے منسلک ہونے کے بعد کے چند مہینوں میں لیانا کو ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں کافی کچھ سننے کو ملا۔ پھر گزشتہ برس یہ خاتون بیمار پڑ گئی اور اس کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کیا گیا جو مثبت رہا۔ اب لیانا زیر علاج ہے لیکن اس کا علاج بہت مہنگا ہے۔
لیانا کو اپنے اس علاج پر ماہانہ تیس ہزار انڈونیشی روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اسے کوئی پتہ نہیں کہ لمبے عرصے تک وہ اس رقم کا بندوبست کیسے کرے گی۔ اسے یہ بھی ٹھیک سے علم نہیں کہ وہ کب اور کیسے ایچ آئی وی پوزیٹو ہوئی۔ اس کی ایک چار سالہ بیٹی ہے جو اس وائرس سے محفوظ ہے۔ تاہم لیانا کو اس بارے میں بڑی تشویش ہے کہ اگر ایچ آئی وی وائرس نے مستقبل میں ایڈز کے مرض کی شکل اختیار کرتے ہوئے اس کی جان لے لی، تو اس کی بیٹی کا کیا بنے گا؟
DWD