FAO کے ڈائریکٹر جنرل یاک ڈیوف کے بقول عالمی زرعی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنا ہوگا ورنہ پیدا ہونے والا غذائی بحران سیاسی بحران کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔
ایف اے او کے نمائندہ برائے ایشیا پیسیفک ہیرویوکی کونوما کے بقول اس وقت دنیا بھر میں اناج کا ذخیرہ سالانہ ضروریات کے 25 فیصد کے قریب ہے تاہم اگر زرعی پیداوار میں اضافہ نہ کیا گیا تو صورتحال بگڑتی نظر آتی ہے۔ کونوما کے بقول، ’سال 2050ء تک دنیا کی آبادی 9.1 بلین تک پہنچنے کی توقع ہے جو اس وقت 6.1 بلین ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہماری پیش گوئی ہے کہ سال 2050ء تک زرعی پیداوار میں 70 فیصد تک اضافہ ضروری ہے۔‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت کی طرف سے سال 2010ء میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق ایشیا میں سری لنکا، بھارت، نیپال، فلپائن، بنگلہ دیش، جاپان اور انڈونیشیا میں اناج کی پیداوار میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ تاہم پاکستان میں سیلاب کے باعث اناج کی پیداوار کم رہے گی، جبکہ جنوبی کوریا، لاؤس اور تھائی لینڈ میں دیر سے بارشیں ہونے کے سبب پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف چین میں اناج کی پیداوار میں بہت ہی کم اضافہ متوقع ہے۔
ایف اے او کے مطابق ایشیا پیسیفک کے علاقے میں زراعت کے لیے دستیاب زمین میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا۔ کونوما کے بقول ترقی پذیر ممالک کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ہوگی۔
اقوام متحدہ کے مطابق سال 2008ء کے غذائی بحران کی طرح کی صورتحال دوبارہ پیدا ہونے کے امکانات تو بہت کم ہیں، تاہم مصنوعی قلت جیسے خطرے سے ضرور خبردار کیا گیا ہے جو اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بن سکتی ہے۔
۔بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی