چھوٹے بچوں کا جھوٹ اگر پکڑا جائے، تو ان کے والدین کو فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنا چاہیے اور نہ ہی فکر مند نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں وہ وجوہات تلاش کرنا چاہیئں، جن کی بنا پر بچے جھوٹ بولنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
وہ میں نہیں تھا‘ یا ’میں نے دانت برش کر لیے ہیں‘ یہ وہ چھوٹے چھوٹے جھوٹ ہیں، جو بچے اکثر ہی بولتے ہیں اور یہ بچپن کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں والدین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بچے اس طرح کی جھوٹ اس لیے بولتےہیں کیونکہ انہیں سزا کا ڈر ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کو اس مخصوص صورتحال میں بچوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ غور کرنا چاہیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں، جن کے باعث بچہ جھوٹ بول رہا ہے۔
بچوں کے ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں الزام لگانا، لمبی لمبی بحثیں یا پھر سخت سزائیں دینا مناسب نہیں اور ان طریقوں سے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہونا ناممکن ہی ہیں۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ہر جھوٹ کے پیچھے ایک نیت ہوتی ہے اور والدین کو اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
بہت سے والدین خیال کرتے ہیں کہ جھوٹ بولنا غلط ہے لیکن بچوں کے ساتھ جب اسے اولین نظریہ بنا لیا جائے تو صورتحال بگڑ بھی سکتی ہے۔
جرمن ماہر نفیسات Karin Hauffe-Boje کے مطابق سچ کے ساتھ کھیلنا چھوٹے بچوں کی زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے لیکن جب یہ خطرناک صورتحال اختیار کرے، تو والدین کو نوٹس لینا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ چار برس کی عمر تک بچوں کو سچ اور جھوٹ کےمابین فرق معلوم نہیں ہوتا اور اس عمر کے بچے صورتحال کا مکمل ادارک بھی نہیں رکھتے۔ کیرن کہتی ہیں کہ پانچ اور چھ برس کی عمر میں بچوں کو سچ اور جھوٹ کے بارے میں آگاہی ہونا شروع ہوتی ہے۔
جرمنی کی Goettingen یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفیسات گوئنتررائش کا کہنا ہے کہ اگر والدین چھوٹے بچوں کا جھوٹ پکڑ لیں تو انہیں فوری طور پر ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے،’جب بچے جھوٹ بولتے ہیں، تو وہ سزا سے خوف زدہ ہوتے ہیں، شاید انہیں یاد ہوتا ہے کہ ان کے والدین نے ماضی میں ایسی ہی کسی بات پر شدید ردعمل ظاہر کیا تھا یا پھر انہیں سخت سزا دی تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کریں۔