پاکستانی وزارت برائے خوراک و زراعت کے مطابق اربوں روپے مالیت کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، جن میں چاول، گنا اور کپاس نمایاں ہیں۔ ماہرین کے مطابق پڑوسی ملک بھارت کے پاس بہترین موقع ہے کہ اب وہ پاکستان کو کپاس برآمد کرے۔
بھارتی حکومت نے رواں سال اپریل میں کپاس برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی تاکہ مقامی منڈی میں کپاس کی قیمت مستحکم رہے۔ اس مرتبہ مناسب بارشوں کی وجہ سے بھارت میں کپاس کی پیداوار زیادہ ہوئی ہے، جس کے بعد نئی دہلی حکام نے کپاس کی پاکستان کو برآمد پرعائد پابندی اٹھا لی ہے۔ اندازہ ہےکہ رواں سال اکتوبر سے بھارتی کپاس پاکستان پہنچنا شروع ہو جائے گی۔ بھارت میں ملکی کاٹن ایسوسی ایشن کے صدر دھرین سیٹھ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے تیار ہیں۔
پاکستان میں برآمدات کا ساٹھ فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی صنعت پورا کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق سیلابی پانی کپاس کی کھڑی فصلوں کو اپنے ساتھ لے گیا ہے، جس کی وجہ سے برآمدات میں بیس فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ حالات میں پاکستانی معیشت پہلے ہی کمزور ہے اور یہ اضافی بوجھ اس پر مزید دباؤ ڈال دے گا۔
پاکستانی وزارت خوراک و زراعت کے مطابق زرعی شعبے میں تقریباً تین ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ سب سے زیادہ فصلیں صوبہ پنجاب میں تباہ ہوئی ہیں۔ ماہر معاشیات اے بی شاہد کہتے ہیں کہ پاکستان گزشتہ کچھ سالوں سے بھارت سے کاٹن درآمد کرتا آیا ہے اور اب جبکہ ملک کو اس شعبے میں شدید بحران کا سامنا ہے، یہ درآمدی سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
پاکستان کا شمار بھارت سے کپاس درآمد کرنے والوں اہم ملکوں میں ہوتا ہے۔ دنیا میں چین کے بعد بھارت ہی کاٹن کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔
بھارت میں کپاس کے ایک تاجر آئی جی دریا کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں نئی دہلی حکومت کو ایک نیا ضابطہ متعارف کراتے ہوئے صرف اضافی کاٹن ہی برآمد کرنے کی اجازت دینی چاہئے، ورنہ ملک میں کپاس کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
زرعی شعبے کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ بھارت سال 2010-11 میں کپاس کی 32 ملین گانٹھیں پیدا کر سکتا ہے، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں چار ملین زیادہ ہوں گی۔
پاکستان میں حالیہ سیلابوں نے وہاں کاشت کی گئی بہت سی فصلوں کو یا تو بالکل تباہ کر دیا یا وہ بری طرح متاثر ہوئیں۔ ایک اندازے کے مطابق سیلاب سے چار ملین ایکڑ سے زائد زرعی اراضی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان میں زرعی شعبے کی تباہی نے کسانوں کو شدید پریشان کر رکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سیلاب تو اپنے ساتھ سب کچھ لےگیا ہے، لیکن پانی بہت عرصے تک کھڑا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ کہ یہ کسان فوری طور پر نئی فصلیں کاشت کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ کسانوں کو بیچ، کھاد اور دیگر زرعی اشیاء فراہم کرنے میں کم از کم دو سال لگے گے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ مجموعی طور پر صرف دو سال ہی نہیں بلکہ پاکستانی کسانوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے میں اس سے کہیں زیادہ عرصہ لگے گا۔
بشکریہ DW