دنیا بھر میں کاربن اخراج پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کاربن کا اخراج ایک نئی انتہا پر پہنچ گیا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 میں مالیاتی بحران کے اثرات کی وجہ سے کاربن اخراج میں کمی دیکھی گئی تھی تاہم 2010 میں ان میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔
توانائی ایجنسی کے مطابق اب تک سنہ 2008 میں ریکارڈ کاربن اخراج ناپا گیا تھا تاہم دو ہزار دس میں دنیا میں اس ریکارڈ سے بھی پانچ فیصد زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کی گئی ہے۔
اگرچہ اخراج میں اضافہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوا ہے لیکن اس اضافے کا اصل ذمہ دار چین اور بھارت کو قرار دیا جا رہا ہے
دنیا کاربن اخراجات کی اس حد کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے جس تک اسے سنہ 2020 تک پہنچنا تھا اور اگر جلد ہی صحیح فیصلے نہیں کیے گئے تو کینکن میں مقرر کیا جانے والے ہدف حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
فیتھ برل، آئی ای اے
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کاربن اخراج میں اضافے سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ آیا مضرِ ماحول گیسوں پر قابو پانے کا ہدف حاصل ہو سکے گا یا نہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس میکسیکو کے شہر کینکن میں عالمی رہنما اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے قبل کے درجہ حرارت سے دو سنٹی گریڈ سے زیادہ نہ بڑھنے دینے کے لیے کاربن اخراج میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کرنی پڑیں گی۔
تاہم آئی ای اے کے اندازوں کے مطابق سنہ 2010 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج تیس اعشاریہ چھ گیگاٹن رہا ہے۔ ادارے کے اہلکار فیتھ برل کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار خطرے کی گھنٹی ہیں۔
ان کے مطابق ’دنیا کاربن اخراجات کی اس حد کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے جس تک اسے سنہ 2020 تک پہنچنا تھا اور اگر جلد ہی صحیح فیصلے نہیں کیے گئے تو کینکن میں مقرر کیا جانے والے ہدف حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا‘۔
BBC Urdu