دُنیا بھر کی طرح جرمنی میں بھی گوگل کی مقبولیت میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا تھا لیکن اب کچھ عرصے سے جرمنی میں رائے عامہ کی طرف سے گوگل کی مخالفت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پروفیسر ٹورسٹن کوئربر، جو جرمنی کی گوئٹنگن یونیورسٹی میں قانون پڑھاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’جرمنی میں رائے عامہ گوگل کے خلاف ہو چکی ہے اور اب یورپی یونین کے کاروباری مقابلہ بازی پر نظر رکھنے والے حکام بھی اِس کے خلاف کمر کَس کر رہے ہیں‘۔ اُنہوں نے یہ بات یونیورسٹی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں کہی، جس میں گوگل سرچ سائٹ کے ساتھ ساتھ معلومات کی آزادانہ ترسیل اور علم کی طاقت کو موضوع بنایا گیا تھا۔
پروفیسر کوئربر نے کہا کہ مقابلہ بازی سے متعلق جرمن قانون کی رُو سے کسی کمپنی کا بڑا ہو جانا کوئی جرم نہیں ہے اور نہ ہی یورپی یونین کا قانون کسی کمپنی کے طاقتور ہو جانے کو قابلِ تعزیر گردانتا ہے تاہم گزشتہ برس مائیکرو سافٹ کی ذیلی فرم Ciao سمیت گوگل کی کئی حریف کمپنیاں اِس نتیجے پر پہنچیں کہ گوگل حد سے تجاوز کر چکا ہے اور اُنہوں نے اُس کے خلاف شکایت کر دی۔
گوگل سرچ سائٹ کے خلاف ایک شکایت یہ ہے کہ یہ تلاش کے نتائج میں گڑبڑ کرتی ہے اور نتائج کچھ اِس طرح سے دکھاتی ہے کہ اُس کی حریف کمپنیوں سے متعلق صفحات کبھی بھی نتائج کی فہرست میں اوپر کے حصے میں یا اُس کے قریب نظر نہیں آتے۔
گوئٹنگن منعقدہ کانفرنس میں شریک گوگل کے نمائندوں نے اِن دعووں کی تردید کی کہ اُن کا ادارہ مارکیٹ میں اپنی بالا دست حیثیت سے ناجائز فائدے اٹھا رہا ہے۔ تاہم جرمن شہر ہینوور میں ایک سرچ انجن لیباریٹری کے سربراہ وولف گانگ زانڈر بوئرمان کے مطابق کسی صارف کی طرف سے کوئی کلیدی لفظ ٹائپ کیے جانے کے بعد گوگل کمپنی اِس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کیا کچھ ’اچھا‘ اور کیا کچھ ’بُرا‘ ہے اور نتائج کی فہرست میں چوٹی کی پوزیشنوں پر کیا کچھ آنا چاہیے۔ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ گوگل اپنے صارفین کی تلاش کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے اُن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کر سکتا ہے، جو ناجائز طور پر دیگر کاروباری اداروں کے حوالے کی جا سکتی ہیں۔ گوگل کس طریقہء کار کے تحت اپنے نتائج کی فہرست کی درجہ بندی کرتا ہے، یہ بات بدستور ایک سربستہ راز بنی ہوئی ہے۔
گوگل پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بالا دست حیثیت کا حامل یہ سرچ انجن اِس طرح نتائج میں گڑ بڑ پیدا کرتے ہوئے معلومات اور آگہی پر مبنی معاشرے کے لیے ایک خطرے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ زانڈر بوئرمان کے مطابق گوگل کے مقابلے پر اِس جیسا کوئی اور سرچ انجن قائم کرنے کے لیے کم از کم پانچ ارب ڈالر کا ابتدائی سرمایہ درکار ہو گا۔ مزید یہ کہ اِس نئی کمپنی کی ناکامی کی صورت میں سارا سرمایہ ڈوب بھی سکتا ہے۔
جرمنی میں انٹرنیٹ پر معلومات کی تلاش کے لیے 90 فیصد سے زیادہ گوگل کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ گوگل کے بڑے حریف یاہو اور مائیکروسافٹ (بِنگ) ہیں، جن کا جرمن مارکیٹ میں حصہ تین تین فیصد سے بھی کم ہے۔
۔بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی