اپنے اختتام کی طرف بڑھتے اِس سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی کہ برٹش پیٹرولیم (BP) جیسے ادارے ہی نہیں بلکہ صنعتی ممالک بھی زیادہ سے زیادہ خطرات مول لے کر زمین کے اندر سے تیل نکالنے میں مصروف ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے انسان کتنا زیادہ تکنیکی امکانات کی آخری سرحدوں تک آن پہنچا ہے، اِس کا اندازہ اِس سال امریکہ میں آئل پلیٹ فارم ’ڈیپ واٹر ہورائیزن‘ کی تباہی کے بعد خلیج میکسیکو میں تیل کی ہولناک آلودگی سے بخوبی ہو گیا۔ نائجیریا اور کینیڈا میں بھی اِسی طرح کے واقعات پیش آئے، جن سے ثابت ہوا کہ اِس ’سیاہ سونے‘ کے حصول کے لئے انسان ماحولیاتی آلودگی کی بھاری قیمت بھی ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔
ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا ایٹمی توانائی معدنی تیل کا ایک اچھا متبادل ثابت ہو سکتی ہے؟ اِس سال وفاقی جرمن حکومت نے جرمن ایٹمی بجلی گھروں کی مدت میں توسیع کی منظوری دی لیکن دوسری جانب دُنیا بھر میں ابھی تک کوئی ایک بھی ایسا مرکز نہیں بنایا جا سکا ہے، جہاں ایٹمی فُضلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیا جا سکتا ہو۔ ایسے میں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا تاہم رواں سال بھی پوری دُنیا ہی میں اِس سلسلے میں ضروری پالیسیاں ترتیب دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔
اِس سال اکتوبر میں وفات پا جانے والے جرمن سیاستدان ہیرمان شیئر آخری دم تک جرمنی ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا میں اِس بات کی انتھک کوششیں کرتے رہے کہ توانائی کے معدنی وسائل پر انحصار ختم کیا جائے اور قابلِ تجدید ذرائع پر ایک سو فیصد انحصار کا ابھی سے آغاز کر دیا جائے۔ ہیرمان شیئر کا کہنا تھا:’’توانائی کے سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ دُنیا کے ہر ملک میں توانائی کی تمام تر ضروریات کو صرف اور صرف قابلِ تجدید ذرائع کی مدد سے پورا کرنا بالکل ممکن ہے۔ اِس کے لئے سخت محنت کرنا ہو گی لیکن یہ محنت بنیادی شرط ہے، اگر ہم آنے والے تمام وقتوں کے لئے کافی مقدار میں اور سستی ماحول دوست توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اِس صدی کا یہی بڑا چیلنج ہے۔‘‘
جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے ہیرمان شیئر نے ’توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع پر سو فیصدی انحصار لازمی‘ کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے، جو اب اُن کی وفات کے بعد شائع ہوئی ہے۔ دریں اثناء بہت سی حکومتیں بھی ’سیاہ سونے‘ کو خیر باد کہنے کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہیں۔ وفاقی جرمن وزیر ماحول نوربرٹ روئٹگن کہتے ہیں:’’جرمنی اب تک اِس میدان میں جتنی کامیابی حاصل کر چکا ہے، اُس کے پیشِ نظر ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم سن 2020 تک توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع پر انحصار کو 40 فیصد تک لے جائیں گے۔
جرمن وزیر ماحول کا خیال ہے کہ یہ ہدف پوری یورپی یونین میں بھی حاصل کرنا ممکن ہے اور اِس ہدف کا حصول اِس پورے خطے کو معاشی طور پر آگے لے کر جائے گا۔ تاہم موجودہ مخلوط حکومت اپنے اُس فیصلے کی وجہ سے اپوزیشن اور عوام کی زبردست تنقید کا بھی ہدف بن رہی ہے، جس کے تحت ایٹمی بجلی گھروں سے استفادے کی مدت میں مزید اوسطاً بارہ سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔ تاہم جرمن عوام ایٹمی توانائی کے سخت مخالف ہیں اور سورج، ہوااور پانی سے حاصل ہونے والی بجلی کو زیادہ پُر کشش خیال کرتے
حکومت کا موقف یہ ہے کہ ایٹمی توانائی کو ترک کر کے جلد از جلد توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع اپنانے کی صورت میں توانائی کی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِس کے برعکس کوسٹا ریکا اور مالدیپ جیسے ممالک اگلے چند عشروں کے اندر اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک توانائی کے حصول کی منزل حاصل کر لیں گے۔
عوامی جمہوریہ چین بھی اِس شعبے میں بہت زیادہ سرگرم ہے، جس کا اعتراف اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سیکریٹیریٹ کی خاتون سربراہ کرسٹیانا فگیریس نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں:’’سب سے واضح مثال چین کی ہے، جو گزشتہ پانچ برسوں سے اپنی توانائی کی پالیسیاں ماحول کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے بنا رہا ہے۔ چین ان دنوں اقتصادی ترقی کے حوالے سے اپنا بارہواں پنج سالہ منصوبہ سامنے لا رہا ہے، جس میں توانائی کے باکفایت استعمال اور قابلِ تجدید توانائیوں کے واضح اہداف مقرر کئے گئے ہیں۔‘‘
چین یہ بات ثابت کر رہا ہے کہ توانائی کے معدنی ذخائر پر انحصار بتدریج کم کرتے ہوئے بھی معاشی ترقی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ اِس طرح چین بلاشبہ دوسرے ملکوں کے لئے ایک مثال ہے
DWD