ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا اور اس کی فضاؤں میں یونین جیک لہراتاتھا اور اور وہ انہیں اچھے برے کی تمیز سکھاتا تھا اور آزادی کے64 سال بعد کا منظر نامہ یہ ہے کہ برطانوی طالب علم بھارتی اساتذہ سے پڑھ رہے اور وہ بھی ریاضی جیسا مضمون انٹرنیٹ کے ذریعے۔
دن کے ساڑھے تین بج چکے ہیں اور لندن میں واقع رین ہیم پرائمری سکول کے بچے ریاضی کی کلاس کی تیاری کر رہے ہیں۔
ہزاروں کلو میٹر دور بھارت میں ان کے اساتذہ بھی پڑھانے کی تیاری میں ہیں۔ انٹرنیٹ نے اس ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھے مختلف لوگوں کو ایک ہی کلاس میں پڑھنے اور پڑھانے کو ممکن بنا دیا ہے۔ جہاں ہر بچے کے لیے ایک الگ ٹیچر آن لائن موجود ہے ۔
الٹس بیسن ایک ٹیچر ہیں۔ وہ اپنے طالب علموں سے مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ بچوں کے رزلٹس بہت اچھے آئے ہیں۔ وہ بچے جو کلاس میں اتنا اچھا نہیں سمجھ سکتے تھے آن لائن لیپ ٹاپ پر بہتر نتائج دکھا رہے ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ ہر بچے کو انفرادی طورپر ایک ٹیچر کی خصوصی توجہ حاصل رہتی ہے۔
الٹس کے شاگرد اپنے آن لائن ٹیچر سے خوش نظر آتے ہیں۔ سمعیہ قادر ایک طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آن لائن کلاس سے مجھے بہت مدد مل رہی ہے، بعض اوقات کلاس میں اساتذہ کی آواز صاف سنائی نہیں دیتی لیکن آن لائن یہ مسئلہ نہیں ہے۔
عبدالفاضل بھی آن لائن تعلیم حاصل کرنے والا ایک طالب علم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آن لائن سب مختلف موضوعات پر بات کر رہے ہوتے ہیں اور ہر ایک کو ٹیچر کی انفرادی توجہ حاصل ہوتی ہے۔
ہر بچے کے لیے ایک الگ ٹیچر کا خیال پیش کرنے والی کمپنی برائٹ سپارک ایجوکیشن کے بانی ٹام ہوپر ۔ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے کے اس طریقے میں بچے بہت پر اعتماد نظر آتے ہیں۔ اور معیاری تعلیم کے لیے یہی بنیادی نکتہ ہے۔ آپ انھیںٕ تعلیم حاصل کرنے پر اختیار دیں اور آپ دیکھیں گے کہ وہ بہت کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
رین ہیم پرائمری سکول یورپ کے ان چند سکولوں میں شامل ہے جہاں آن لائن تعلیم کی سہولت متعارف کروای گئی ہے۔ انہیں20 سے 25 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے اساتذہ بھی دستیاب ہیں اور روایتی تعلیم کے طریقہ کار کے مقابلے میں خرچ بھی آدھا ہے۔لیکن کچھ لوگ اس سے ناخوش بھی ہیں۔
کیون کورٹنی برطانیہ کی نیشنل یونین آف ٹیچرز کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ ان کا کہناہے کہ میرے خیال سے کلاس روم کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے جہاں طلبہ اور اساتذہ کے درمیان ایک تعلق بنتا ہے۔ بچوں کو فوری ردعمل چاہیے ہوتا ہے جو شاید آن لائن حاصل نہ ہوسکے ۔ میرے خیال سے دنیا کے ایک امیر ملک ہونے کے ناطے ہم اساتذہ اور بچوں کے اس حقیقی تعلق کو قائم رکھنے کے ذرائع رکھتے ہیں۔
جبکہ برائٹ پارک ایجوکیشن کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ تعلیم روایتی تعلیم میں رہ جانے والی کمی کو دور کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اور اس سے روایتی اساتذہ کی نوکریوں کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔
والدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے آن لائن تعلیم سے بچوں میں بہتری دیکھی ہے اور وہ اس طریقہ کار سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔
VOA