اعصاب اور پٹھوں کا عارضہ

Glycogen Storage Disease جسے Pompe Disease بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا نیورو مسکیولر یا اعصاب اور پٹھوں کا عارضہ ہے جو جسم میں ایک خاص Enzyme یا کیمیائی خمیر کی کمی سے پیدا ہوتا ہے۔

اس Enzyme کو Acid alpha Glucosidase کہا جاتا ہے۔ اس کیمیائی خمیر کا کام گلائی کوجین کوتوڑنا ہے۔ یعنی کاربو ہائیڈریٹ کے اس ذخیرے کو جو بیشتر عضلات اور جگر میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

Glycogen Storage Disease یا اعصاب اور پٹھوں کے اس نوعیت کے عارضے کی شناخت پہلی بار 1932 میں ہوئی تھی۔  Pompe Disease کی تشخیص ولندیزی ماہر تشخیص امراض  Joannes Pompe نے کی تھی اور انہی کے نام پر اس عارضے کو Pompe Disease کا نام دیا گیا ۔ 1932 میں Joannes Pompe نے اس مرض کی تشخیص ایک سات ماہ کے بچے میں کی تھی جو ’کارڈیئک ہائیپر ٹروفی‘ یا قلب کی بیش نموئی کی وجہ سے ایک سال کی عمر بھی نہ پا سکا اور انتقال کر گیا تھا۔

ماہر تشخیص امراضJoannes Pompe کی تحقیق سے پتہ چلا کہ اُس بچے کے جسم کے مختلف ٹشوز خاص طور سے اس کے دل اور جسمانی ڈھانچے کے عضلات میں بہت زیادہ گلائی کوجین جمع تھی۔ 1963 میں ریسرچرز کی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ  Pompe Disease ایک موروثی بیماری ہے جو جسم میں Acid alpha Glucosidase نامی Enzyme کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ Enzyme دراصل جسم میں پائے جانے والے گلائی کوجین کو جمنے سے بچاتا ہے اور اسے توڑ کر گلوکوز میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر یہ عمل نارمل طریقے سے جسم میں نہ ہو سکے تو گلائی کوجین پٹھوں کے خلیوں میں جمع ہو کرعضلات کے فنکشن یا فعل میں خرابی یا نقص پیدا کر دیتا ہے۔


Pompe Disease کی عمومی علامات: اس عارضے میں مبتلا زیادہ تر مریض بازوؤں اور ٹانگوں  کے عضلات یا پٹھوں میں کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ خاص طور سے پیروں میں اور ان کے لئے چہل قدمی اور سیڑھیاں چڑھنے کا عمل بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے عضلات جو نفس کشی یا سانس لینے کے عمل میں استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی کمزور ہو جاتے ہیں اور  Pompe Disease میں مبتلا مریض کو خاص طور سے لیٹ کر سانس لینے میں بہت دقت ہوتی ہے۔

چھوٹے بچوں میں یہ بیماری سب سے زیادہ دل کے بڑھ جانے اور دیگر عارضہ ہائے قلب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے اس بیماری کے علاج کے لئے ایک دوسرے Enzyme جسے Alglucosidase کہتے ہیں ، کو چھ  ماہ سے کم عمر کے 18 بچوں کے جسم میں منتقل کرنے کا تجربہ کیا۔ یہ بہت کامیاب رہا۔ ان 18 بچوں میں سے 15 کو سانس لینے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی اور یوں یہ Enzyme ’پومپے ڈیزیز‘ میں مبتلا انسانوں کے علاج کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔

بشکریہDW

ArticlesBlogEducationHealthتحقیقات | Researchصحت و تندرستی | Healthکالم
Comments (0)
Add Comment