ہارمون سٹڈی کے لئے فرضی تحقیقی مضامین

ایک امریکی جریدے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہارمون کے فوائد اور کم نقصانات کے بارے ایک بڑے امریکی دوا ساز ادارے نے فرضی مصنفین کے نام سے مختلف تحقیقی مضامین مختلف طبی و سائنسی جرائد میں شائع کروائے ہیں۔

امریکی جورج ٹاؤن یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر اڈریان فوگ برمن نے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک درجن سے زائد تحقیقی مضامین کا تجزیہ کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ یہ تمام فرضی محققین کے نام سے شائع کئے گئے تھے۔ فرضی محققین کے مضامین مختلف طبی جرائد اور رسائل کے خصوصی ضمیموں کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان تمام فرضی مضامین کے پس پردہ سابقہ دوا ساز کمپنی وائتھ کا ہاتھ تھا۔ وائتھ فارماسوٹیکل کمپنی کو اب ایک اور دوا ساز ادارے فائزر نے خرید لیا ہے۔
ان مضامین کی اشاعت کی خاطر ایک طبی کمپنی تشکیل دی گئی تھی۔ اس میڈیکل کمپنی کا نام ’’ ڈیزائن رائٹ‘‘ تھا۔ دوا ساز ادارے وائتھ کی جانب سے اندازہً پچیس ہزار ڈالر فی مضمون کے حساب سے رقم اس کمپنی کو فراہم کی گئی تھی۔ اس طرح فرضی محققین کی جانب سے ہارمون ریسرچ کے کلینیکل پہلوؤں کو مالی منفعت کے لئے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انہی مضامین میں ہارمون والی ایک دوا ’’پریمپرو‘‘ کے استعمال کے فوائد کو بھی عام کیا گیا تھا۔ اس دوا کے فائدے والے آرٹیکل کی تعداد چار تھی۔ ان مضامین کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ ہارمون کی تبدیلی سےچھاتی کے کینسر کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بے بنیاد حقیقت سامنے لائی گئی کہ وائتھ کی ایک دوا امراض قلب کے لئے مفید ہیں۔
ڈاکٹر اڈریان فوگ برمن اور ان کے ساتھیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ’’وائتھ‘‘ کی جانب سے میڈیکل ریسرچ مضامین شائع کروانے والی کمپنی ڈیزائن رائٹ کو کم از کم بیس طبی معلومات والے مضامین مختلف طبی تحقیقی جرائد کو طباعت کے لئے فراہم کرنے تھے۔ اس مناسبت سے ابتدا میں ہر مضمون کی لاگت بیس ہزار ڈالر رکھی گئی تھی، جو بعد میں بڑھا دی گئی تھی۔ ان فرضی مصنفین کے مضامین سے معالجین کو قائل کرنا تھا کہ وہ عام انسانوں میں ڈیمنشیا، رعشہ، بصارتی امراض اور عارضہ قلب کے حوالے سے بغیر ریسرچ کی دوائیں تجویز کریں، جو انجام کار دوا ساز ادارے کے لئے منافع کا باعث ہوتا۔
وائتھ کو خریدنے والے ادارے فائزر نے ڈاکٹر اڈریان فوگ برمن کی رپورٹ کو چیلنج کیا ہے کہ ان کی تمام تحقیق حقائق کے منافی ہے۔ دوسری جانب وائتھ کی متعارف کردہ دوا ’’پریمپرو‘‘ کی مقبولیت بھی بہت کم ہو چکی ہے۔ سن 2001 ء میں یہ دوا ایک ارب ڈالر کی مالیت میں مریضوں نے خریدی تھی۔
تجویز کیا گیا ہے کہ طبی قانونی حلقے بغیر ریسرچ کی ادویات کی مقبولیت کے لئے جو مضامین لکھتے ہیں ان کا قانونی انداز میں روکنا اشد ضروری ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو

urduskywww.urdusky.com
Comments (0)
Add Comment