مسلمان نقاش پانچ سو سال قبل بیسویں صدی کی ریاضی کے اصولوں سے واقف تھے
مقالہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ’’مسلمان فن کاروں نے پانچ صدیاں قبل ہی ایسا طریقہ وضع کر لیا تھا جس کو بروئے کار لا کر وہ بے عیب ’پین روز‘ نقش و نگار تخلیق کر لیتے تھے۔‘‘
ازمنہٴ وسطیٰ کے مسلمان فن کار اور نقاش مسجدوں، مزاروں اور محلات میں دیدہ زیب کاشی کاری کے نمونے بنانے کے لیے بیسویں صدی کی ریاضی کے اصول استعمال کیا کرتے تھے، جن سے مغربی دنیا 1970ء کے عشرے میں روشناس ہوئی۔
اس بات کا انکشاف مشہور رسالے ’سائنس‘ کے میں ہارورڈ یونی ورسٹی کے دو نوجوان سائنس دانوں پیٹر لُو اور پال سٹائن ہارٹ نے ایک تحقیقی مقالے میں کیا ہے۔ مقالہ نگاروں کا خیال ہے کہ مسلمان نقاش پیچیدہ ریاضی اور جیومیٹری کے اصولوں سے مغربی دنیا کے مقابلے میں پانچ صدیاں قبل ہی روشناس ہو چکے تھے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے بیل بوٹوں اور نقش و نگار کی طرف زیادہ توجہ اس لیے دی کہ قرآن نے جان دار اشیا کی مصوری سے منع کیا ہے جس کی بنا پر مسلمان انسانوں اور جانوروں کی تصاویر بنانے سے گریز کیا کرتے تھے۔
تاہم یہ بات اس لیے زیادہ قرینِ قیاس نہیں ہے کہ مسلمان مصوروں نے بڑے پیمانے پر انسانوں اور انواع و اقسام کے جانوروں کی تصاویر بنائی ہیں۔ اس سلسلے میں ایران اور مغلیہ ہندوستان میں فروغ پانے والی منی ایچر مصوری کے دبستان میں بڑی تعداد میں شان دار پورٹریٹس کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت، ہندومت اور دوسرے کئی مذاہب کے برعکس اسلام ایسا مذہب ہے جس میں خدا کی کوئی مادی شکل و صورت بیان نہیں کی گئی۔ قرآن میں خدا کو صرف نور کے ہیولے کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ مشہور آیت’اللہ نور السمٰوات والارض‘ (اللہ زمین اور آسمان کا نور ہے) میں اسی بات کا اظہار کیا گیا ہے۔ چناں چہ مسلمان نقاشوں کے لیے فطری تھا کہ مسجدوں ، درگاہوں اور دوسرے مقدس مقامات کی سجاوٹ کے دوران اس نور کو علامتی انداز میں ظاہر کرنے کے لیے وہ ستاروں کی اشکال کا استعمال کریں، اور ان کو بنیاد بناتے ہوئے نقش و نگار بنائیں۔
عربوں کی صحرائی بود و باش میں ستاروں کی ایک اور اہمیت بھی تھی۔ اور وہ یہ کہ لق و دق، بے چہرہ صحراؤں میں سمتوں کا تعین کرنے اور راستا ڈھونڈنے کے لیے بھی ستاروں سے مدد لی جاتی تھی۔ مزید برآں، عرب مشاق اورجری ملاح تھے اور زمانہٴ قدیم ہی سے بحر نوردی کے لیے مشہور تھے۔ ظاہر ہے کہ سمندر میں سمتوں کے تعین کے لیے بھی ستاروں ہی سے مدد لی جاتی تھی۔
عربوں کا معاشرہ بنیادی طور پر خانہ بدوش تھا، جہاں رہائش کے لیے خیمے اور فرنیچر کے طور پر قالین کا استعمال عام تھا۔ قالین بافی ان کے اہم ترین فنون میں شامل تھی۔ بعد میں جب عربوں نےجزیرہ نمائے عرب سے اٹھ کر چار دانگِ عالم میں عظیم شہری مراکز قائم کرنا شروع کیے تو انھوں نے قالینوں پر خوش نما نقش و نگار بنانے کے ہنر کو وسعت دے کر عالی شان عمارتوں کو منقش کرنے کا فن سیکھ لیا۔اور یوں نقاشی کا نادر الوجود اسلامی آرٹ وجود میں آگیا۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان صناع اتنے نفیس، پیچیدہ اور ’جدولِ گل پیچ‘ سے بھرپور ڈیزائن بناتے کیسے تھے؟
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ گُل کار پرکار اور پیمانے کی مدد سے اپنے گنجلک فن پارے تخلیق کرتے ہوں گے۔ لیکن پیٹر لو اور سٹائن ہارٹ کا خیال ہے کہ دراصل مسلمان صناعوں نے پانچ صدیاں قبل ایک قسم کی جیومیٹری دریافت کر لی تھی جس کی مدد سے وہ ڈیزائن بناتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سادہ نمونوں کے لیے تو پرکار اور پیمانے سے مدد لی جاسکتی ہے لیکن ان دو آلات کی مدد سے انتہائی پیچیدہ نمونوں کو بے عیب طریقے سے بنانا تقریباً ناممکن ہے کیوں کہ چھوٹی چھوٹی ابتدائی غلطیاں پھیل کر وسیع و عریض دیواروں پر پھیلے ہوئے نمونوں میں بہت بڑے عیبوں کا باعث بن سکتی ہیں۔
مقالہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ’’مسلمان فن کاروں نے پانچ صدیاں قبل ہی ایسا طریقہ وضع کر لیا تھا جس کو بروئے کار لا کر وہ بے عیب ’پین روز‘ نقش و نگار تخلیق کر لیتے تھے۔‘‘
سر راجر پین روز برطانوی ماہرِ طبیعات ہیں۔ انھوں نے 1970ء کے عشرے میں ایک ایسا جیومیٹری کا نمونہ دریافت کیا تھا جسے بغیر دہرائے ہوئے بڑے پیمانے پر ڈیزائن بنائے جا سکتے ہیں۔ اس نمونے کو ’پین روز نمونہ‘ کہا جاتا ہے۔
پیٹر لو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ازبکستان کے سفر کے دوران بخارا میں انھوں نے مسحور کن عمارتی نقش و نگار دیکھے۔ عبداللہ خان مدرسے کی بیرونی دیواروں پر ستاروں پر مبنی ایک پیٹرن نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ بعد میں ہارورڈ یونی ورسٹی واپس آ کر انھوں نے مزید تحقیق کی جس کے بعد ان پر ان ڈیزائنوں کے پیچیدہ ریاضی سے تعلق کا راز کھلا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اس تہذیب کو اس قدر اہمیت نہیں دیتے جو اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی جتنا ہم عام طور پر اسے سمجھتے ہیں۔‘‘
پیٹر لو کا کہنا ہے کہ یہ نقش و نگار جیومیٹری کی خاص کویسائی کرسٹیلائن اشکال کے زمرے میں آتے ہیں۔ کویسائی کرسٹیلائین (quasi-crystalline) نقش و نگار آپس میں گتھے ہوئے ٹکڑوں پر مبنی ہوتے ہیں جس کے نمونے اپنے آپ کو کبھی بھی نہیں دہراتے اور انھیں چاروں سمتوں میں لامتناہی طریقے سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے نقش و نگار سے بڑی عمارتوں کی وسیع و عریض دیواروں کو سجانے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس طرح کے نمونے کی ایک مثال اصفہان کے ضربِ ایمان درگاہ کی ہے جسے 1463ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔
پیٹر لو اور پال سٹائن ہارٹ کا خیال ہے کہ اس طرح کے نمونے بنانے کے لیے خاص قسم کی آرائشی اینٹیں یا ٹائلیں استعمال کی جاتی تھیں جنھیں مقالے کے مصنفین نے ’گرہ‘ ٹائیلوں کا نام دیا ہے۔ ان گرہ ٹائیلوں کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جن میں دس رخی، ہیرے کی شکل کی، بو ٹائی (bow-tie) ، مخمس اور مسدس اشکال شامل ہیں.
بنیادی "گرہ” شکل (گلابی) جو خود نظر نہیں آتی لیکن ڈیزائن میں بار بار دہرائی جاتی ہے
لو اور سٹائن ہارٹ کا نظریہ ہے کہ یہ اشکال وہ بنیادی ڈھانچا فراہم کرتی ہیں جس کو بنیاد بنا کر مسلمان فن کار عقل کو چکرا دینے والی نفاست سے اپنے نمونے تخلیق کیا کرتے تھے:
’’سینکڑوں دس رخی اشکال کو پیمانے کی مدد سے ٹھیک ٹھیک مقام پر رکھنا بے حد دقّت طلب کام ہے۔‘‘ پیٹر لو کا کہنا ہے۔ ’’ زیادہ امکان یہی ہے کہ مسلمان فن کار مخصوص اشکال کی ٹائیلیں استعمال کیا کرتے تھے۔ اس نظریے کو بنیاد بنا کر ہم نے ان نقش و نگار کو از سرِ نو بنانے کا راز معلوم کر لیا ہے۔‘‘
اسلامی نقش و نگار کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کے ایک جیسے نمونے فاصلوں اور وقت کی قید سے آزاد، تمام اسلامی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آگرہ میں جو کندہ کاری ہے، اس کا ہو بہو نمونہ اندلس کی اسلامی تعمیرات میں بھی میں بھی پایا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اُس زمانے کے ایسے مخطوطے ملے ہیں جن میں ڈیزائن بنانے کے طریقے درج ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ مختلف ملکوں میں آباد مسلم فن کار ایسی کتابوں تک رسائی رکھتے ہوں۔ اس قسم کی ایک کتاب ترکی سے ملی ہے جسے "توپ کاپی سکرول” کہا جاتا ہے۔
اس سکرول کو دریافت اور مدوّن کرکے شائع کروانے والی ہارورڈ یونی ورسٹی کی اسلامی تحقیق کار گل رُو نجی پوگلو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ کتاب ایران میں لکھی گئی تھی لیکن وہاں سے استنبول کے عثمانی دربار لے جائی گئی تھی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ تیرھویں صدی عیسوی میں لکھی جانے والی اسلامی ڈیزائن کی کتابیں میں اس قسم کے ڈیزائن بنانے کی تراکیب درج ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے کی اسلامی دنیا میں فن کارانہ خیالات اور نظریات کی ترسیل عام تھی۔
راجر پین روز بھی ہارورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں کی دریافت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کویسائی کرسٹل کا نظریہ اگرچہ کافی مبہم ہے، تاہم اسلامی پیٹرن میں اس نظریے کی اچھی خاصی جھلک نظر آتی ہے، جو انتہائی متاثر کن ہے۔‘‘
بشکریہ VOA