ماں
تحریر: محمد الطاف گوہر
عظمت کی بلندیوں پر موجود ایک ہستی جو کبھی ابر کا سایہ بنے تپتی دھوپ میں میرے سر پہ شفقت کی چھاؤں کیئے رھتی ، تو کبھی مایوسی کے گرداب میں دھنسنے لگتا تووہ فورا لپک کر ہاتھ تھام لیتی ، اور کبھی راہ میں ٹھوکر لگ جاتی تو آگے بڑھ کر گرنے سے بچا لیتی ، اور کبھی خوف کے بادل چھا جاتے تو وہ ہمت کی کرن بن جاتی ، اور کبھی ناکامی کے کھڈے میں لڑکھنے لگتا تو وہ کامیابی کی رسی کا سرا پکڑادیتی ، ایک بار تو اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکو پچھاڑ دیا ۔
قدرت کے اس حسین تحفے کی آج تعریف کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر مجھے وہ الفاظ نہیں ملتے کہ جن میں اظہار کروں، ہر لفظ اسکی عظمت کے سامنے چھوٹا لگ رہا ہے ،رشتوں کو پیار کی ڈوری میں پروئے ہوئے ہر لحظہ خیرکی طلبگار وہ ہستی میری ماں ہے جس کے احسانات کا بدلہ کبھی بھی نہ چکا سکوں گا۔ ماں اگر ایک طرف سچائی کے جذبے کا نام ہے تو دوسری طرف محبت کی باز گشت بھی یہیں سے آتی ہے ۔
پوری دنیا میں انسانیت پر قدرت کے لازوال تحفے کی حرمت میں آج مدر ڈے منایا جا رہا ہے جبکہ ہر قوم اپنے طریقے سے اسے مناتی ہے مگر جذبہ فقط ایک ہی اور وہ اس عظیم ہستی کے انسانیت پر احسانات کو سلام پیش کرنا ہے۔
ماں کے لیۓ دیگر الفاظ ؛ اماں ، امی ، ممی ، ماما اور مادر وغیرہ کے آتے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا لفظ دنیا کی متعدد زبانوں میں خاصا یکسانیت رکھنے والا کلمہ ہے، اور اس کی منطقی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ماں کے لیۓ اختیار کیۓ جانے والے الفاظ کی اصل الکلمہ ایک کائناتی حیثیت کی حامل ہے اور اسے دنیا کی متعدد زبانوں میں ، اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کے منہ سے ادا ہونے والی چند ابتدائی آوازوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب بچہ رونے اور چلانے کی آوازوں کی حدود توڑ کر کوئی مخصوص قسم کی آواز نکالنے کے قابل ہوتا ہے اور بولنا سکھتا ہے تو عام طور پر وہ اُم اُم / ما ما / مم مم / مما مما (پا پا) وغیرہ جیسی سادہ آوازیں نکالتا ہے اور محبت اور پیار کے جذبے سے سرشار والدین نے ان ابتدائی آوازوں کو اپنی جانب رجوع کر لیا جس سے ماں کے لیۓ ایسی آوازوں کا انتخاب ہوا کہ جو نسبتاً نرم سی ہوتی ہیں یعنی میم سے ابتدا کرنے والی اور باپ کے لیۓ عموماً پے سے ابتدا کرنے والی آوازیں دنیا کی متعدد زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔
ماں کو عربی زبان میں اُم کہتے ہیں، اُم قرآن مجید میں 84 مرتبہ آیا ہے ، اس کی جمع اُمھات ہے ، یہ لفظ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے ، صاحب محیط نے کہا ہے کہ لفظ اُم جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے مشتق ہے جب وہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اُم اُم وغیرہ کہتا ہے اس سے اس کے اولین معنی ماں کے ہوگئے ، ویسے اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل ، اُم حقیقت میں یہ تین حرف ہیں(ا+م+م ) یہ لفظ حقیقی ماںپر بولا جاتا ہے اور بعید ماں پہ بھی ۔ بعید ماں سے مراد نانی، دادی وغیرہ یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو امنا ( ہماری ماں) کہا جاتا ہے ۔
افراد کی تربیت میں اگر بنیادی کردار دیکھا جائےتو وہ صرف ماں کا ہے ، سن شعور کی منزل تک پہنچنے سے پہلے اگر باپ کی شفقت شامل ہے تو ماں بھی ایک تربیت گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اعلیٰ تربیت کی بدولت عظیم ماؤں نے محمد بن قاسم ، ٹیپوسلطان ، صلاح الدین ایوبی، محمدعلی جناح اور اقبال جیسے سپوت قوم کو دئیے مگر آج یہ قوم ایک لیڈر کو ترس رہی ہے ، کیا ماؤں کے دودھ میں وہ طاقت نہیں رہی یا پھر تربیت کسی ملاوٹ کی نظر ہوگئی ہے؟