سن 2009ء طب اور صحت کے شعبے کے لئے کیسا رہا
پسن2009 کے دوران جہاں طب اور صحت کے شعبے میں کئی اہم ایجادات ممکن ہوئیں اور کئی سائنس دانوں نے کامیابیاں حاصل کیں،وہیں سوائن فلو وائرس نے طبی ماہرین کو ہلا کر رکھ دیا۔
مارچ سن دو ہزار نو کو جب میکسیکو میں سوائن فلو کے کیسز سانے آئےتو شاید ہی کسی کو معلوم تھا کہ یہ وائرس سال دو ہزار نو کے دوران ایک بڑی بیماری بن جائے گا اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ WHO کے مطابق بیس دسمبر سن 2009ء تک یہ وائرس 208ممالک اور خِطّوں تک پہنچ چکا تھا۔
سن دو ہزار نو ، مارچ کے مہینے میں میکسیکو کی ریاست ویراکرُوز میں واقع لا گلوریاکی ساٹھ فیصد آبادی ایک نامعلوم بیماری میں مبتلا ہو گئی۔ ابتدائی طور پر خیال کیا گیا کہ یہ H2N3 فلو ہے تاہم مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ H1N1 فلو ہے۔ چھ ماہ کے مختصر عرصے میں ہی اس وائرس نے پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ستائیس اپریل سن دو ہزار نو کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا:’’جو اطلاعات مجھے موصول ہو رہی ہیں، اُن کے مطابق اب یہ وبا امریکہ میں بھی پہنچ چکی ہے۔ صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے اور صحت کے شعبے میں بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورتحال کا تقاضا کر رہی ہے۔‘‘
طبی ماہرین اس وبا سے لڑنے کے لئے یک جان ہو گئے لیکن یہ وائرس بڑھتا ہی چلا گیا۔ عالمی ادارہء صحت WHO نے اس وبا کے پھیلنے کے دو ماہ بعد ہی یعنی جون میں اسے ایک عالمی وبا قرار دے دیا تھا۔ یوں چالیس سالوں بعد پہلی مرتبہ کسی وائرس کوعالمی سطح پر ایک وبا کا درجہ دیا گیا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اپریل کے مہینے میں ہی امریکہ میں سوائن فلو سے نمٹنے کے لئے ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ اوباما نے کہا:’’ صحت اور ہیومن سروسز مہیا کرنے والے محکمہ جات نے صحت عامہ کے شعبے میں احتیاطی طور پر ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے تاکہ سوائن فلو سے نمٹنے کے لئے مؤثر اور فوری تدابیر اختیار کی جا سکیں۔‘‘
WHO کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق سوائن فلو کے وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم ازکم 11,500 ہو گئی ہے۔ یہ اعدادوشمار WHO نے سن دو ہزار نو کے آخری ہفتے شائع کئے گئے۔ دوسری طرف اب سوائن فلو وائرس جنوبی ایشائی ممالک میں بھی پہنچ چکا ہے۔ بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے بعد اب نیپال میں بھی اس وائرس کے نتیجے میں ایک موت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
طب کے شعبے میں نوبیل انعام
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں طب کے نوبل انعام برائے دو ہزار نو کا اعلان کیا گیا۔ اس سال یہ اعزاز مشترکہ طورپر تین امریکی سائنس دانوں کے نام رہا۔ ان میں جیک زوسٹاک کے ساتھ ساتھ دو خواتین ایلزبتھ بلیک برن اور کیرل گرائیڈر بھی شامل ہیں۔
ان کی تحقیق انسانی جسم کی بنیادی ترین اکائی، سیل یعنی خَلیے کے اندر کروموسومز سے متعلق ہے۔ اِس تحقیق کا براہ راست تعلق سرطان کے علاج سے ہے۔ طبی حلقوں میں اس تحقیق کے بعد امید ظاہر کی گئی ہے کہ شاید اس سے کینسر کا علاج دریافت کرنے کی راہ ہموار ہوجائے۔
نوبل انعام جیتنے کے بعد خاتون سائنس دان ایلزبتھ بلیک برن نے کہا کہ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ خواب دیکھ رہی ہوں۔انہوں نے کہا: ’’میں سمجھی کے میں ابھی بھی خواب دیکھ رہی ہوں، پھر اس شخص نے ٹیلی فون کرنے کی وجہ بتائی اورپھر مجھے یقین آ ہی گیا کہ نہیں یہ واقعی حقیقت ہے۔‘‘
اس نئی تحقیق کا دوسراپہلو ایجنگ یعنی عمر رسیدگی سے متعلق ہے۔ انعام یافتہ محققین ایلزبتھ بلیک برن، کیرل گرائیڈر اور جیک زوسٹاک نے اُس انزائمز یعنی خامرے کا پتہ چلایا، جو خَلیوں کے ٹوٹنے کے عمل کے دوران زندگی کی بنیاد سمجھے جانے والے ڈی این اے کی نقل بناتا ہے۔
ان تینوں نے ڈی این اے کی ساخت اور عمر رسیدگی کے پہلو پر کام کا آغاز کیا تھا۔ نوبل جیوری کے بقول انعام یافتہ محقیقن کے کام نے کروموسومز کے مطالعے سےمتعلق ایک پیچیدہ گھتی سلجا دی، جس نے سائنس دانوں کو طویل عرصے سے پریشان کر رکھا تھا۔
ساٹھ سالہ آسٹریلوی نژاد ایلزبتھ کا تعلق امریکہ کی کیلی فورنیا یونیورسٹی سان فرانسیسکو سے، چھپن سالہ برطانوی نژاد زوسٹاک کا تعلق ہاروڈ میڈیکل اسکول سے جبکہ اُن کی تیسری ساتھی اڑتالیس سالہ کیرل کا تعلق جان ہاپکنز یونیورسٹی سے ہے۔
ایڈز کی ویکسین کا کامیاب تجربہ
سال دو ہزار نو میں ہی تھائی لینڈ میں ایڈز جیسی مہلک بیماری سے بچاؤ کے لئے ایک ویکسین کا تجربہ کیا گیا ہے، جو کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ اس پیش رفت کو ایڈز کے خلاف کی جانے تحقیق میں ایک بڑا قدم کہا جا رہا ہے۔ ایڈز کی بیماری 1981ء میں سامنے آئی تھی، اور تب سے اب تک 25 ملین افراد اس بیماری سے ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ دنیا بھر میں 33 ملین افراد آج بھی ایڈز کے مریض ہیں۔ اس بیماری سے نبرد آزما ہونے کے لئے سال دو ہزار نو میں ویکسین کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔
تھائی لینڈ کے سائنسدانوں کے مطابق اس ویکسین کی وجہ سے ایڈز سے متاثر ہونے کا خطرہ ایک تہائی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ تھائی لینڈ کے وزیر صحت نے اِس سال 24 ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ اس کامیاب تجربے سے ایک اہم ترین بات یہ سامنے آئی ہے کہ ا س ویکسین میں ایڈز سے بچاؤ کی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ صلاحیت فی الحال اتنی زیادہ نہیں ہے کہ اسے عام مریضوں کے استعمال کے لئے مارکیٹ میں لایا جائے۔
تھائی لینڈ کی وزارت صحت اور امریکی فوج کے زیر انتظام ایڈز ویکسین پروگرام نے HIV/ AIDS سے بچاؤ کے لئے یہ ریسرچ، اکتوبر 2003 ء میں شروع کی تھی۔ اس ریسرچ کے دوران ’کینوری پوکس‘ اور ’ایڈز ویکس‘ نامی دو ٹیکوں کو آپس میں ملا کر ایک نئی ویکسین تیار کی گئی۔ اس کے بعد تھائی لینڈ کے دو صوبوں میں 18 سے 30 سال کی عمر کے سولہ ہزار تین سو پچانوے مردوں اور عورتوں پر، تین مرحلوں پر مشتمل ان ٹیکوں کا تجربہ 2006 ء میں شروع کیا گیا۔ تاہم اس تحقیق کے لئے تھائی لینڈ کے جن دو صوبوں کا انتخاب کیا گیا، وہاں پہلے ہی ایڈز کے کافی کیسز مشاہدے میں آئے تھے۔
اس طبی جانچ کے دوران سولہ ہزار سے زائد ایسے رضاکار شامل کئے گئے، جو HIV نیگیٹیو تھے، یعنی اُنہیں ایڈز کا وائرس نہیں لگا تھا۔ ان افراد کی آدھی تعداد کو یہ ٹیکے لگائے گئے، جبکہ باقی افراد کو سادہ ٹیکے لگائے گئے۔ جن افراد کو یہ ٹیکے لگائے گئے، ان میں سے صرف 51 افراد HIV وائرس سے متاثر ہوئے، جبکہ سادہ ٹیکے لگائے گئے افراد میں سے 74۔ اس طرح HIV کی نئی ویکسین کی وجہ سے اس بیماری سے متاثر ہونے کے خطرات میں 31.2 فیصد کمی واقع ہونے کے سائنسی شواہد سامنے آئے۔
بشکریہ DWD