دنیا میں ایک گھنٹے میں ایک ہزار بچے
موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں
اِن بچوں میں اموات کی بڑی وجہ نمونیا ہے جب کہ مختلف اداروں کے متفقہ اعداد و شمار کے مطابق غربت، لاعلمی اور سرکاری طبی سہولیات کے فقدان کے سبب آج بھی ہر سال ایک کروڑ پاکستانی بچے نمونیا کا شکار ہو رہے ہیں اور مرض کی پیچیدگی میں مبتلا ہوکر سالانہ 92ہزاربچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
بچوں کو اُن کے دیگر حقوق کے ساتھ بہتر صحت اور طبی حقوق کے تحفظ کے لیے 20نومبر 1999ء میں منظور کردہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر حکومتِ پاکستان عالمی امداد کے باوجود کتنا عمل پیرا ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگانا آسان ہے کہ 20نومبر کو بچوں کا عالمی دِن مناتے ہوئے زندگی کے پہلے سال ہر ایک ہزار بچوں میں 80پاکستانی بچے انتقال کر جاتے ہیں، جب کہ جاپان میں یہ تعداد صرف سات ہے۔
آٹھ درجن کے قریب پولیو مہمات کے باوجود پاکستان بھر میں اِس سال بھی پولیو وائرس کی تمام اقسام اور وائرس کا شکار متعدد اپاہج بچے سامنے آرہے ہیں۔
بچوں کے عالمی دِن کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستانی پیڈریاٹک ایسو سی ایشن کے مرکزی جنرل سیکریٹری اور بچوں کی صحت کے ماہر پروفیسر محمد عارف نے بتایا کہ ملک بھر میں صحت کے مسائل سے دوچار لقمہٴ اجل بن جانے والے لاکھوں بچوں میں سے 11فی صد اسہال کا شکار اور پیدائش کے وقت کم وزن بچے ہیں۔اگر دیہی علاقوں کے کمیونٹی ورکروں کو جدید تربیت دے کر فعال کر دیا جائے تو نمونیا، خسرہ اور تشنج کا مرض کنٹرول کیا جاسکتا ہے، جب کہ حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کو کامیاب کرکے اموات کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔
حکومتِ پاکستان بچوں کی صحت کے بہت سے منصوبوں پر عالمی برادری کے تعاون اور کثیر سرمائے سے کام کر رہی ہے جِس کے نتائج عالمی یوٕمِ اطفال پر سب کے سامنے ہیں۔طبی ماہرین نے اربابِ اختیار سے اپیل کی ہے کہ ہسپتالوں کی نئی عمارتیں بنانے کی بجائے پہلے سے جاری منصوبوں کے کام کی کڑی نگرانی کی جائے، ملک کے دور دراز علاقوں میں بہتر سہولیات اور مستند طبی عملہ فراہم کیا جائے تاکہ پاکستان میں سنہ 2015ء تک ہر ایک ہزار بچوں میں سے مرنے والے 80بچوں کی تعداد کو کم کرکے 40تک لایا جاسکے۔
بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کا فریضہ احسن طریقے سے ادا کرنے کے معنی اپنے مستقبل کو سنوارنا اور عالمی یومِ اطفال منانے کا مقصد پورا کرنا ہے۔
بشکریہ VOA