ایک بار دیکھا ہے ، بار بار دیکھنے کی خواہش ہے،
تحریر: محمد الطاف گوہر
آخر کیا بات ہے ؟ نہ جانے آج کی رات "دیدارِیار”سے دوری کیوں ہوئی ، ملال بھی اور انتظار بھی ، اس گومگو کیفیت نے دن بھر بے چین کئے رکھا،پچھلے پہر پھر دریا کی راہ لی تو سڑک کنارے پراگندہ بال دمکتا چہرہ ایک نوجوان محو رقص نظر آیا ،میں نے اس کے رقص میں عجب محویت دیکھی وہ کسی انجانے سرور میں مگن لوگوں سے بے پرواہ اپنے ہی اندر ڈوبا ہوا جھوم رہا تھا ۔میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کے پوچھا ،دیوانہ لگتا ہے؟تو وہ آنکھیں کھول کر مسکرایا اور بولا کیا تو اپنے محبوب کے تصور میں محو رقص نہیں؟ اس کائنات میں کون محو رقص نہیں ہے ؟
واقعی یہ رقص و ارتعاش واقعی ہماری زندگی کی بقا ہے ۔اگر زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے تو چاند زمین کے گرد اور دونوں سورج کے گر د گھوم رہے ہیں ۔جبکہ سورج اور دیگر ستاروں کے جھرمٹ میں محو ارتعاش ہیں ۔اس کائنات کا ذرہ ذرہ محو رقص ہے جبکہ ریاضی اور طبعیات کے قوانین تو قوانین حرکت ہیں ؛ ایٹم کے اندر الیکٹران نیوکلیئس کے گرد اور ان سب کو محبت کی طاقت نے باند ھ رکھا ہے ۔تمام قوتیں , اجسام , توانائیاں جبکہ زندگی خود بھی ارتعاشی عمل کی سرگرمی اور فعالیت ہے ۔یہ ارتعاشی عمل اپنے بنیادی اور انتہائی درجہ پر سیاروں ،ستاروں ،نظام شمسی ، برقی ، آسمانی و علوی، حرارتی ، صوتی اور رنگ کی دنیا میں جاری و ساری ہے جبکہ ذہن بھی اس ارتعاشی عمل سے خارج ا ز امکان نہیں جسکے باعث انسانی زندگی کا جذبات جاذب و طلسمی ،تصوراتی پہلو حتکہ قسمت کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے ۔
انہی خیالات میں ڈوبا ہوا میں دریا کنارے پہنچا اور موج مستی میں اٹکھیلیاں کرتی پانی کی موجوں کا رقص دیکھنے لگا، ایک تو آج طبعیت اداس تھی دوسرا رات کا فراق بھی مدتوں کی دوری کیطرح ڈس رہا تھا۔ دریا کنارے گھاس کے مخملی قالین پر بیٹھا انتظار میں ڈوبا ہوا تھا مگر ابھی تلک کوئی بھی صدا سنائی نہ دی ، نہ ہی فضا میں صبا کا رقص دیکھنے کا ملا، اس عالم میں دیدا دل وا کیا اور تصورِ جاناں میں کھو گیا؛
؎ دل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ من کو چھونے والی آواز سنائی دی ” ناراض ہو کیا؟” تو جھٹ سے آنکھیں کھول دیں، وصال کے ایک جھونکے نے انگڑائی لی اور میرے لبوں سے چھوتا دریا برد ہو گیا، ” کہاں رہ گئی تھی میری راتوں کی نیند چرانے والی؟” میں نے پوچھا ، تو جواب ملا ” تیری رات تجھے لوٹانے کی خاطر نہ آئی، مت پوچھ کہ کس کرب سے گزری ہوں اس رات ، دوری کا تو اب تصور بھی محال ہے”، ” تیری الفت کے راہ میں سب کچھ بھول چکی، زندگی کے پھول نے جب محبت کی زمین سے جنم لیا تو اسکی مہک بقا کا پیغام لیکر ہر سو پھیل گئی جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ نہ صرف مامور ہوا بلکہ محو رقص ہو گیا ۔پھولوں میں خوشبو ،پھلوں میں رس، موسم میں انگڑائی، ہواؤں کی اٹھکھیلیاں ،زمین میں جاری چشمے اور سبزہ ،آسمانوں پہ بادل اور چہروں پہ انجان مسرت محبت کی مرہون منت ہے”، ” ہر طر ف سے محسور کن نظارہء محبوب ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ خوابوں و خیالوں میں بسنے والا تصور کبھی فضاؤں میں نظر آتا ہے اور پھر کبھی اس کے تصور سے لذت بند جاتی ہے جبکہ اس تجربہ زندگی کا بھی عجب سماں ہے ، وصل ہو کہ فراق دونوں میں لذت آتی ہے”۔
واقعی ، میں نے اسکی بات کے اثبات میں سر ہلا دیا، اور گویا ہوا” جب کوئی انسان جذبہء محبت کی لذت سرشار رہتا ہے تو یہی اسکی زندگی کا موسم بہار ہے، یہ سماں بھی کتنا دلربا ہے کہ لمحات زندگی مسرتوں سے لبریز ہوجاتے ہیں اور لذت کا چشمہ قلب سے جاری ہو جاتا ہے جسکا ادراک صرف اور صرف اس تجربہ سے گزرنے والوں کو ہو سکتا ہے ۔ہر آواز موسیقی کی طرح پرد ہ سماعت پر وارد ہوتی ہے،زندگی اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہے ،خوشبو کی طرح فضاؤں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے جبکہ قاہ او ر آہ میں بھی لذت سے معمور ہوتے ہیں ”
انہی باتوں میں شام نے ہمیں اپنی آغوش میں لینے کیلئے باہیں پھیلا دیں ، خورشید نے پہاڑوں کے دامن میں چھپنا شروع کر دیا، دریا میں موجوں کی اٹھان ماند پڑنے لگی ، درختوں کے سائے لمبے ہونے لگے اور پرندوں نے بھی اپنے گھونسلوں کا رخ کیا ، دریا کے پار دن کی سپیدی نے شام کے اندھیرے کا استقبال کیا، اور دن تھا ڈوبا ہی چاہتا تھا مگر ہمارے پیار کی ترنگ اپنے جوبن پرتھی جہاں ایک پل کی دوری بھی ناگن کیطرح ڈسنے لگتی تھی۔
جاری۔۔۔