دماغ میں یادیں بنانے کے نظام ,
اور الزائمر پر قابو پانے والے ہارمون کی دریافت
امریکی سائنسدانوں نے اس نظام کی دریافت کر لی ہے جس کی وجہ سے دماغ یادیں بنانے کے قابل ہوتا ہے۔ سناپسز جہاں دماغی خلیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ مرکز ہے جہاں معلومات کا تبادلہ اور دماغ میں معلومات جمع ہوتی ہیں۔ لیکن تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان کو اب یہ معلوم ہوا ہے کہ سناپسز میں مالیکیول کیسے یادیں پختہ کرنے کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔نیورون میں چھپنے والی اس تحقیق کے بارے میں امید کی جا رہی ہے کہ یہ الزائمر کی بیماری کی دوا کی تیاری میں مدد کرے گی۔ الزائمر بیماری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سناپسز کی بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ سے قلیل مدتی یادیں متاثر ہوتی ہیں اور پھر طویل مدتی یادوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔یادوں کی پختہ رکھنے کے لیے ایک تندرست و توانا سناپسز کی ضرورت ہوتی ہے اور اس عمل میں نئی پروٹین کا بننا شامل ہوتا ہے لیکن ابھی یہ نہیں معلوم کہ انسانی جسم اس عمل کو کیسے کنٹرول کرتا ہے۔ سینٹا باربرا میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چوہوں پر کیے گئے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پروٹین کا بننا صرف اس وقت ممکن ہے جب آر این اے کام کر رہا ہو۔ آر این اے اس عمل کا نام ہے جس میں مالیکیولوں کا مجموعہ جینیاتی پیغامات نیوکلیئس سے دیگر خلیوں تک پہنچاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ الزائمر دنیا بھر میں بڑی عمر کے افراد کے لیے ایک خطرے بنتا جا رہا ہے۔
اس مرض کی روک تھام پر کام کرنے والے ماہرین کی توجہ کا مرکز اب ایک ایسا ہارمون ہے جس سے اس نشان دہی میں مدد مل سکتی ہے کہ کس شخص میں الزائمر یا دماغی انتشار کے مرض میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ 2050ء تک دنیا بھر میں الزائمر میں مبتلا افراد کی تعداد میں چار گنا تک اضافہ ہوجائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف 40 سال کے عرصے میں ہر 85 افراد میں سے ایک شخص الزائمر کا مریض ہوگا اور ان میں سے کئی مریضوں کو بہت زیادہ نگہداشت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی۔ جب کہ اس وقت یہ شرح 350 میں صرف ایک ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر الزائمر کے مریضوں میں ڈرامائی اضافے کے پیش نظر اس بیماری سے بچاؤ، مرض لگنے کے بعد اس کا عمل سست کرنے کے ساتھ ساتھ اس مرض سے
منسلک دماغی کیفیات کے علاج کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
اس بیماری کے علاج کے لیے ماہرین مریضوں کے دماغ کی سکیننگ کرتے ہیں اور ایم آرآئی کی مدد سے انہیں مریض کےدماغ کی حجم اور صحت کے بارے میں اندازہ قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر سودھا سیشادری، بوسٹن یونیورسٹی میں یاداشت کی خرابیوں پر تحقیق کرنے والی ٹیم سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہناہے کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی
ہے، ہمارے دماغ کے حجم میں کمی آتی ہے۔ لیکن کئی لوگوں میں یہ کمی زیادہ اور کئی ایک میں کم ہوتی ہے۔ اور اگر دماغ کے سکڑنے کی شرح زیادہ ہوتو الزائمر یا یاداشت کی خرابی سے متعلق امراض میں مبتلاہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ان کی تحقیق ایک خاص ہارمون leptin پر مرکوز ہے جو بھوک پر کنٹرول میں مدد دیتا ہے۔
ماہرین کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کے دماغ میں اس ہارمون کی سطح زیادہ تھی، ان میں الزائمر اور یاداشت کی خرابیوں کے مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ نسبتاً کم تھا۔ ماہرین نے اپنی تحقیق کے لیے بڑی عمر کے سات سو سے زیادہ ایسے افراد کا مطالعہ کیا جنہیں یاداشت کی خرابی کے حوالے سے
کسی شکایت کا سامنا نہیں تھا۔ آٹھ سال کے بعد ان میں سے دوسو افراد کے دماغوں کی سکینگ کی گئی، جس سے ماہرین کو یاداشت کی خرابی اورہارمون leptin کے درمیان تعلق کے بارے میں علم ہوا۔
ڈاکٹر سودھا سیشادری کا کہنا ہے کہ جن افراد میں اس ہارمون کی سطح بہت زیادہ تھی، زیر مطالعہ 12 سال کی مدت کے دوران ان میں یاداشت کی خرابی سے منسلک امراض میں مبتلا ہونے کا صرف چھ فی صد خطرہ ظاہر ہوا، جب کہ جن افراد میں یہ ہارمون اپنی کم ترین سطح پر تھا، ان میں دماغی بیماریوں کا امکان 25 فی صد تک تھا۔
مطالعاتی ٹیم نے تحقیق میں شامل رضاکاروں کے دماغوں کے حجم کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر سودھا سیشادری
یہ تحقیق امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
بشکریہ VOA